سنہری فیصلے اور سیاہ تاریخ


چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب ایک دن خوب خرگوش سے بیدار ہوئے تو ان کی زندگی بدلی ہوئی تھی۔ آئینہ دیکھا تو خاص تبدیلی محسوس نہ ہوئی لیکن ان کا دل دھڑک رہا تھا اور دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ناشتے کی میز پر آپ نے اعلان کردیا کہ میں ایک سال کے لئے بالکل بدل گیا ہوں۔ گھر والوں نے بلکہ پورے پاکستان نے ان کے اس اعلان کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن یہ بات صرف وہ خود جانتے تھے کہ وہ بدل چکے ہیں۔

بدلے ہوئے ثاقب نثار نے اعلان کر دیا کہ وہ انصاف کے لئے حکومت کی بھی پرواہ نہیں کریں گے۔ چنانچہ آپ نے حکومت کو ہی چلتا کیا۔ نواز شریف کے خلاف تاریخ ساز فیصلہ کرکے تاریخ میں اپنا مقام بنا لیا۔ ان کے اس فیصلے کو نواز لیگ کے بے عقل وزیروں نے تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ یہ فیصلہ قانون کا خوبصورت استعمال کرکے دیا گیا تھا لیکن عقل سے عاری ان وزیروں نے سرعام اس فیصلے کا مذاق اڑایا۔ چنانچہ ان کے خلاف توہیں عدالت کی سزائیں دے کر عدالتی فیصلوں کو ایک مسلّم حقیقت بنا دیا۔

نواز شریف کا کیس نیب کو بھیجا اس حکم کے ساتھ کہ چھ ماہ کے اندر فیصلہ کردیا جا ئے۔ چھ ماہ میں فیصلہ تو نہ ہو سکا مگر مزید وقت دیتے دیتے جس پہلے ریفرنس کا فیصلہ ہوا اس میں نواز شریف کو تاریخی سزا دی گئی۔ یہ الیکشن کے دن تھے۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ جیل کی ہوا کھانے چلے گئے۔ چیف جسٹس کو قوم نے خراج عقیدت پیش کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف الیکشن مہم نہیں چلا سکے۔ ان کی پارٹی کے غدار انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

نواز شریف الیکشن ہار گئے۔ قوم نے نواز شریف کے ہارنے پر چیف جسٹس کو پھر خرج عقیدت پیش کیا۔ عمران خان پاکستان کے پہلے ایماندار وزیراعظم کے طور پر برسراقتدار آئے۔ قوم نے چیف صاحب کو سیلوٹ کیا۔ اب جناب ثاقب نثار صاحب کا دوسرا دور شروع ہوا۔ اس سے پہلے نواز شریف کے دور میں آپ نے بڑے بڑے ہسپتالوں کے دورے کیے۔ خاص طور پر پنجاب کے کرپٹ اور بندے مار ڈاکٹر تو سیدھے کر دیے۔ ان کے دوروں سے ایسی ہوشربا کہانیاں نکلیں کہ عقل دنگ رہ گئی۔

آپ نے ایک ایک ایسے گھوسٹ ہسپتال کا سراغ لگایا جہاں اربوں خرچ کرنے کے باوجود ابھی تک ایک بھی اپریشن نہیں ہوا تھا۔ اور ڈاکٹر آٹھ آٹھ لاکھ تنخواہیں وصول کر رہے تھے۔ آپ نے وہ ہسپتال بند کرانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ میٹرو ٹرین جو لاہور کے سر سبز درخت کاٹ کاٹ کر بنائی جا رہی تھی اور لاہور کی تاریخی خوبصورتی اورحسن پر بدنما داغ بنتی جارہی تھی، کے خلاف مقدمے کا فیصلہ کر تو دیا لیکن محفوظ کر لیا۔ آٹھ ماہ کے بعد وہ فیصلہ سنایا جس کی وجہ سے بیالیس ارب میں بننے والی میٹرو کی قیمت باسٹھ ارب روپے تک جا پہنچی۔

مخالفوں نے یعنی نون لیگ نے اس پر بڑا واویلا کیا۔ حکومت ختم ہونے میں چار ماہ رہ گئے تھے شہباز شریف نے بڑا زور لگایا، کسی طرح الیکشن سے پہلے یہ منصوبہ مکمل ہو جائے مگر نہ ہو سکا۔ نون لیگ الیکشن ہار گئی۔ ان کی ہار کی وجوہات میں ایک چھوٹی وجہ میٹرو کا مکمل نہ ہونا بھی شامل ہے اور اس کا سہرا ثاقب نثا ر کے سر جاتا ہے۔ آپ کے اس فیصلے سے قوم کی شہباز شریف سے جان چھوٹی۔ یہ کرپٹ خاندان نہ جانے اور کتنے اربوں ڈالر لوٹ کر لے جاتا۔ آپ نے یوں اربوں ڈالر کا فائدہ قوم کو پہنچایا۔ قوم آپ کا یہ احسان بھی یاد رکھے گی۔ مزید یہ کہ یہ منصوبہ شہباز کے دور میں چل پڑتا تو اس نے ووٹوں کی خاطر میٹرو مفت چلا دینی تھی۔ قوم کو مزید اربوں کا چونا لگ جانا تھا

چیف صاحب نے تھر میں غذائی قلت سے مرتے بچوں پر سو و موٹو ایکشن لیا اور سیکرٹری صحت سندھ کو جواب طلبی کے لئے عدالت بلا لیا۔ سو و موٹو ایکشن لینا آپ کی عادت بن گئی تھی۔ سیکرٹری صحت نے غذائی قلت سے لے کر خاندانی منصوبہ بندی اور ان معاشرتی کمزوریوں کا ذکر کیا جو تھر میں وجہ اموات بن رہے تھے جس کو چیف صاحب خاطر میں نہ لائے۔ آپ نے حکم صادر فرمایا کہ تھر کے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے نہ انہیں مرنے دیں گے۔

سندھ حکومت نے اپنی اوقات کے مطابق کوشش تو کی لیکن بے سود۔ دوماہ کے بعد آپ ایک خصوصی طیارے پر سوار ہو کر تھر پہنچے۔ اب تھر کے بچے مرتے نہیں ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ اور موت کا فرشتہ ادھر نہیں آتا۔ اسے ڈر لگ گیا ہے کہیں ثاقب نثار سو و موٹو ایکشن لے کر اسے طلب ہی نہ کرلے۔ توہین عدالت کے قانون کو جس طرح نواز شریف کے حامیوں کی تذلیل پر استعمال کیا اس کی مثال پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ ایک غریب سینیٹر جیل چلا گیا۔ کئی وزیر نا اہل قرار دے دیے گئے باقی معافیاں مانگ کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ انصاف کا اعلی معیار قائیم کرتے ہوئے عمران خان کے اس گھر کو بھی ریگولرائیز کرنے کا حکم دیا جس کا نقشہ جعلی تھا۔ یونین کونسل کے سیکرٹری نے عدالت کے روبرو حلفاً بیان دیا تھا کہ یہ نقشہ ہم نے پاس نہیں کیا۔ ثبوت کے طور پر اس نے بتایا کہ نقشہ پاس کرنے کی جو تاریخ درج تھی ان دنوں یونین کونسل میں کمپیوٹر ہی نہ تھا جبکہ سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا نقشہ کمپیوٹرائزڈ تھا۔ چیف صاحب نے اس جعلسازی کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور انصاف کا اعلی معیار قائم کرتے ہوئے وزیر اعظم کا گھر ریگولرائز کر دیا۔ اور تاریخی جملہ دہرایا! انصاف سب کے لئے۔ کسی کے فائدے کے لئے کسی کے نقصان کے لئے۔

نواز شریف کے بعد زرداری کی باری آئی۔ یہ دونوں حکومت کرنے کے لئے بھی باریاں لیتے تھے۔ سزا کے لئے بھی ثاقب نثار کے سامنے باری کے منتظر تھے۔ زرداری کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنا دی اور پینتیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا پوشیدہ خزانہ دریافت کر لیا۔

آپ نے دہری شہریت والے افسروں اور سیاستدانوں کو آڑے ہاتھوں لیا اوران کی ملک کے ساتھ وفاداری پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ لیکن زلفی بخاری کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ہمدرد سمجھتے ہوئے بطور معاون خصوصی کام کرنے کی اجازت دے دی۔ وزیراعظم عمران خان کی بہن کو بھی نشانے پر رکھا اور ان کی ساٹھ ارب کی جائداد پر قومی خزانے کو ڈھائی کروڑ کا فائدہ پہنچا کر ملکی معیشت کو مضبوط کیا۔ علیمہ خان نے پیسے قومی خزانے میں جمع کرائے یا نہیں، یہ ایک راز ہے۔ علیمہ خان کا اتنے پیسے کمانا بذات خود ایک راز ہے۔ آپ نے اپنے قائم کردہ عدل ثاقب کی مخالفت پر اپنے ساتھی ججوں کو انصاف کا راستہ دکھا دیا۔ چنانچہ ایک جج کو اپنا گھر رنگ و روغن کرنے پر گھر کا راستہ دکھا دیا۔ پاکستان کی تاریخ جسٹس شوکت صدیقی کو سیدھا راستہ دکھانے پر آپ کو ہمیشہ رات کی تاریکی میں یاد رکھے گی۔

آپ کا سب سے بڑا کارنامہ بھاشا ڈیم کی تعمیر تھی۔ آپ نے قوم کو ڈرایا کہ بچو اس وقت سے جب پانی ختم ہو جا ئے گا۔ آپ نے اپنی جائز آمدنی سے کئی لاکھ ڈیم فنڈ میں جمع کرائے۔ آپ کی دیکھا دیکھی فوج کے افسروں اور جوانوں نے بھی اپنی ایک دن کی تنخواہ نذر ڈیم کر ڈالی۔ اس مقصد کے لئے ریڈیو اور ٹی وی پر آپ کی تصویر والے اتنے اشتھار چلائے گئے کہ لوگ شہباز شریف کی تصویر کو بھول گئے۔ آپ ڈیم فنڈ کے لئے انگلستان بھی تشریف لے گئے اور کروڑوں کے فنڈ اکٹھے کر لائے۔

انگلستان میں تھوڑا سا وقت نکال کر اپنے بیٹے سے ملنے بھی گئے لیکن دورے کو ڈیم سے ہی منسوب رکھا۔ ڈیم کی محبت میں موبائیل صارفین کو جو ٹیکس کی مد میں ریلیف دیا تھا واپس لے کر ڈیم فنڈ میں شامل کردیا۔ عمران حکومت میں یہ واحد معاشی فائدہ قوم کو ملا تھا جو ڈیم کی نذر ہو گیا۔ پراپرٹی ٹائکون ملک ریاض کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا۔ اس کو تو بھری عدالت میں ہی 500 ارب ڈیم فنڈ کے نام پر مانگ کر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ کئی وکلا نے آپ کو لاکھوں روپے ڈیم فنڈ میں دینے کی یقین دہانی کروائی بشرطیکہ چیف صاحب ان کا کیس توجہ سے سن لیں۔

پانچ جنوری کو لاہور انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہم اسلامی ریاست میں ہونے والے عدالتی انصاف قائم نہیں کرسکے۔ لیکن میں نے ایسے معاملات کو ترجیح دی جو ملک و قوم کے فائدے میں تھے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار جو اب سابق ہو چکے ہیں۔ عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں خاص طور پر میڈیا نے ان سے محبت کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ان کی مدح سرائی میں 13 ارب روپے کے اشتہار چلائے۔ ہیرالڈ نے سرورق پر ان کی تصویر چھاپ کر سال 2018 کی شخصیت قرار دے دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایوب خان، ضیا اور مشرف کا دور سنہری دور کہلاتا ہے۔ اسی طرح عدل کے حوالے سے جسٹس منیر، نسیم حسن شاہ کے ساتھ ساتھ ثاقب نثار کا دور بھی سنہری کہلائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).