تین’ نثار‘ اور تینوں شرمسار، بے اعتبار اور خوار


فلکِ کج رفتار نے کیسی عجیب چال چلی کہ تینوں ”نثار“ ہی شرم سار و دل فگار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک کے ہاتھ میں قریب قریب دس سال تک میزانِ عدل رہی جسے اس نے خاص طور پر ایک سیاسی جماعت کے خلاف مسلسل دو دھاری تلوار بنائے رکھا۔ اس تمام عرصے میں اس نے عدل و انصاف کا بول بالا نہیں کیا بلکہ عدل اور مساوات کے اصولوں کو تہ و بالا کیا۔ ”ڈنڈا برداروں“ کی محفلوں کی رونق بڑھائی۔ ایوان عدل میں بیٹھے چند گنے چنے اعلیٰ ظرفوں اور انصاف پروروں کو بھی شرمندہ کیا۔

انسانی اور جمہوری قدروں کو لرزیدہ کیا۔ شرفِ آدمیت کو رسوا و سربریدہ کیا۔ جسٹس بھگوان داس، دراب پٹیل اور حمودالرحمان جیسے لوگوں کا سر خمیدہ کیا۔ عدلِ فاروقی کے نام پر اپنا الو سیدھا کیا۔ عدل و انصاف کی میزان کو شمشیرِ آبدار بنا کر ”دشمنوں“ کو للکارتے رہے۔ ایوان عدل ان کی زندہ دلی کی دھاڑ سے گونجتا رہا اور وہاں سے انصاف کے جنازے اٹھتے رہے۔ عدالت میں انصاف کے تقاضوں کا خون کرکے نجی اور سیاسی محفلوں میں کیمروں کی چکاچوند اور مائکوں کے سامنے اپنی غیرجانبداری کی قسمیں کھاتے اور ”آقاؤں“ سے وفاداری کی رسمیں نبھاتے رہے۔ کچھ سیاسی عصبیت کے دلگیر، نواز دشمنی کے اسیر نثار تیرے جاں نثار، بے شمار بے شمار کے نعرے لگاتے رہے اور موصوف عدل و انصاف کی درخشندہ روایات کو اپنی انا کے پھانسی گھاٹ پہ سولی چڑھاتے رہے۔ اپنے منصب کا کروفر، جاہ و جلال اور رعب ودبدبہ کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہمیشہ نت نئے ڈرامے اور ناٹک رچاتے رہے

ایک منصف ہونے کے ناتے انہوں نے کس درجے کی رسوائی اور بدنامی کماٰئی اس کا معمولی سا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ان پر ببانگ دھل ایک سیاسی جماعت کا سرگرم کارکن رہنے کی پھبتی کسی جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ثاقب نثار صاحب بھی عمر کے آخری حصے میں باہر کے کسی ملک کے جدید ہسپتال میں دم واپسیں اپنا ضمیر بیدار ہونے پر ضرور اعتراف کریں گے کہ نواز شریف کیس میں مجھ پر اسٹیبلشمنٹ کا بہت دباؤ تھا، کیونکہ ہمارے ہاں جنرل کا ضمیر ریٹائرمنٹ کے بعد اور جسٹس کا قبل از مرگ بیدار ہوتا ہے مگر ضمیر کے بیدار ہونے کے لیے اس کا ہونا بھی ضروری ہے۔

آج کل کوچہ صحافت کے برگزیدہ، جہاندیدہ اور مردم دیدہ ایک اور صاحب کہ نثار جن کے نام کا لاحقہ ہے وہ بھی اپنی گزری کارگزاریوں، یاوہ گویوں اور سیاہ قلمیوں کا مداوا کرتے پائے گئے ہیں۔ نثار جاؤں ان کی اداؤں پہ کہ ”چوراہے“ میں بیٹھ کرہر آتے جاتے پر الزام و دشنام کی سنگ زنی فرماتے ہیں۔ چہرہء مبارک پر دائمی تناؤ، نفرت، بیزاری اور انقباض کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ سیاستدانوں اور خاص طور پر نواز شریف کا ذکر آتے ہی آپے سے باہر ہوجانا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ موصوف نے کبھی جمہوریت پر شب خون مارنے والے خاکیوں پر اس طرح حرف گیری کی ہو۔ اب معلوم نہیں کہ یہ وزیراعظم ہاؤس میں براجمان روحانی طاقتوں کی کرشمہ سازی ہے، ان کا یو ٹرن ہے یا اندر والوں کا اشارہ ہے کہ ان پر نواز شریف کی اعلیٰ ظرفی اور جناب عمران نیازی کی بے تدبیری و کم عقلی کا انکشاف ایک ساتھ ہوا ہے۔ اس پر ہمیں مرزا غالب کا زود پشیمان والا مشہور زمانہ مصرع یاد آ رہا ہے۔ انہوں نے قریب قریب نصف صدی تک ”چوراہے“ میں بیٹھ کر سیاستدانوں اور زاویہ نظر کا اختلاف رکھنے والوں پر اپنے قلم اور دہن سے اتنی سیاہی انڈیلی ہے کہ اس کا مداوا فقط پشیمانی نہیں، کم ازکم توبتہ النصوح ہے۔ ان کے چوراہے کا حال فیض صاحب سے بصد معذرت کچھ یوں ہوتا ہے۔

”نثار“ میں ترے ”چوراہے“ پہ اے ”حسن“ کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

چار عشروں سے نادیدہ قوتوں کی چھتر چھایا میں دیدہ ودلیری سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے تیسرے نثار خیر سے چودھری کہلاتے ہیں۔ ان کی اصل شہرت کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ مٹی کے بندوں کے بندے ہیں۔ ایک عرصہ سے قافلہ نواز میں شامل رہ کر اپنے ہی لشکر میں نقب زنی کرتے رہے۔ ہمیشہ نواز شریف کو تصادم اور ٹکراؤ کی پالیسی سے باز رہنے کا مشورہ نما حکم دیتے رہے۔ انہیں پُل بن کر طرفین کو باہم ملانے کا بہت شوق تھا۔

اس شوق کی فراوانی اور فریق ثانی کی محبت کی وارفتگی میں ایک دن اس طرف اتنا آگے بڑھ گئے کہ اس کنارے پر کھڑے نواز شریف کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ چودھری صاحب ادھر کھڑے محوِ تماشائے لب بام رہے اور نواز شریف اس طرف کھڑے اپنی بے گناہی کی دہائی دیتے رہے کہ چودھری صاحب کا مفاہمتی پُل ایک پل میں ٹوٹ گیا اور دونوں کے بیچ میں منیر نیازی کا وہ دریا آگیا جسے انہوں نے بڑی جان جوکھوں سے ایک دریا کو عبور کرنے کے بعد دیکھا تھا۔

پھر کیا تھا نواز شریف متنازع فیصلوں کے نتیجے میں قید ہو گئے اور چودھری صاحب ضمیر کے قیدی۔ دشمن پر پیٹھ پیچھے وار نہ کرنے کی ان کی للکار یوں خوار ہوئی کہ لوگوں نے دیکھا کہ انہوں نے صف دوستاں میں کھڑے ہو کر اپنے محسن کے لتے لیے مگر ان کے سرپرست اتنی سی جاں نثاری اور کارگزاری پر کب مطمئین ہونے والے تھے؟ لہٰذا ماتم یک شہر آرزو ہے اور ایک مدت تک سیاست کے دشت میں سیاحت کرنے والے چودھری صاحب۔ عوام ان کی پزیرائی رسوائی میں، شہرت دوام گوشہ گمنام میں، اختیار بے اختیاری میں، اعتبار بے اعتباری میں، بھرم و وقار بے توقیری میں، بلند پروازی شکستہ پری میں اور سیاسی مقام و مرتبہ کم حیثیتی میں بدلتا دیکھ کر انگشت بدنداں ہیں۔

دیکھتے ہیں کہ چودھری صاحب کب ضمیر کے جھانسے میں آکر باقی دو نثاروں سے آ ملتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).