سقوط ڈھاکہ اور الطاف فاطمہ


ادیب اور معاشرہ لازم و ملزم ہیں۔ اسلوب اور کہانی سماج میں رہتے ہوئے اسی کے تانے بانے سے جوڑے جاتے ہیں مگر الطاف فاطمہ کا چلتا مسافر پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ مصنفہ نے بنگلہ دیش میں قدم رکھے بغیر وہاں کی سیاست اور سماج کو اس قدر کھول کر اور واضح بیان کیا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ وہ نہیں رہیں مگر ادب کے قارئین کے لیے خوبصورت تحائف اپنی تخلیقات کے ذریعے دے گئی ہیں۔ الطاف فاطمہ کے ناول ”چلتا مسافر“ کوسقوط ڈھاکہ پر لکھے جانے والے ادب میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ ناول اپنی ابتداء سے انتہا تک معاشرتی و سیاسی چیرہ دستیوں اور انسانی استحصال کے دوہرے رویوں پر مبنی جھوٹی سیاست کے اصل چہرے بے نقاب کرنے ایک کاوش ہے۔ ناول میں بیان کیے گئے حقائق قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جغرافیائی بعد اور حکمرانوں کی غفلت کے باعث جس بد نظمی اور انتشار کا سامنا عوام الناس کو کر نا پڑا اور جنگ کے نتیجے میں جو خون خرابہ اور پکڑ دھکڑ ہوئی مصنفہ اُس کا ذمہ دار اُس دھڑے کو ٹھہراتی ہے جس نے شروع سے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کیے رکھا۔

ایک ہی ملک کے رہنے والے باشندے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تھے، تم بنگالی ہو؟ تم بہاری ہو؟ تم پنجابی ہو؟ یہ جملے ہر کوئی ایک دوسرے سے بول کر اعتبار کی زمین پر اپنے گرتے قدم دوبارہ رکھنا چاہ رہا تھا۔ رشتے ناطے، انسانیت اور قدریں اس وقت تباہ ہو جاتی ہیں۔ جب انسان نسل پرستی کی آڑ میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اس وقت انسانیت کہیں دور کھڑی آنسو بہا رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ جب بھوک سرسے ہو کر پیٹ تک پہنچتی ہے تو پھر کچھ نہیں بچتا ہے۔ بھوک کے بعد نفرت کی آگ ہے جو جلا کرانسانوں کو بھسم کر دیتی ہے۔ 1947 ء میں بھی لاشوں کے انبار تھے اور 1971 ء میں بھی یہی صورت حال تھی۔ انسان یو ں مر رہے تھے جیسے پانی سوکھ جائے تو پانی کے جانور مر جائیں اور کیڑے، مکوڑے پاؤں کے نیچے آکر کچلے جائیں۔ یہی وہ شکل ہے اس مرتی ہوئی انسانیت کی جس کو ناول نگار نے مختلف جگہوں پر واضح کیا ہے۔

”شہر کے بے شمار محلوں اور گھروں کے آگے سے شعلے بلند ہورہے تھے۔ دھواں تھا، اندھیرا تھا۔ ، کرب ناک چیخیں اورکراہیں تھیں اور سیاہ اندھیری رات میں جلے ہوئے مکانوں نے ایک چراغاں کیا ہوا تھا، اس نے لرز کر آنکھیں بند کر لیں، اور ہر طرف سے آنے والی فائرنگ کی دھاں دھاں کو اپنے سے دور رکھنے کے لئے کانوں میں انگلیاں دے لیں“۔

دور سے آنے والے مغربی پاکستان کے لوگوں کو جب آکر مشرقی پاکستان میں بسنا پڑا تو یہاں کے مسائل سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے انہوں نے حقارت کا اظہار کیا، یہ بات تو ایک عام بنگالی بھی محسوس کر سکتا تھا کہ وہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں آکر پنجاب کے لوگوں کا رویہ بنگالیوں کے ساتھ عجیب تھا، جس کو وہ لوگ محسوس کرتے تھے۔ کیونکہ اکثر جگہوں پر وہ ان جملوں کو برداشت کرتے تھے۔

”پھر یہ گندے بھی بڑے ہوتے ہیں بنگالی، ذرا دیکھو توکتنی سڑی ہوئی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں پاس ہی جوہڑ ہوتے ہیں۔ مکھی، مچھر اور چنگڑی، ماچھ  بنیں، یہی ہے ان کا مقدر“

سلسبیل کی ایک بنگالی لڑکے بذلل کے ساتھ دوستی تھی۔ جس کو دوسری خواتین حقارت اور نفرت کی نگاہ سے یکھتی تھیں اور جب موقع ملتا تھا دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے بنگالیوں کو ذلیل و خوار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ اس بیو ر کریٹ طبقے کے لئے اس کے سوا کوئی تفریح نہ تھی کہ وہ بنگالیوں کے خلاف بات کریں اور یا پھر ان کو برا بھلا کہیں۔ ایسے ہی رویے تھے جن کو محسوس کرکے بنگالی عوام کا رویہ تبدیل ہوا اور انہیں محسوس ہوا کہ ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت بڑی کمپنیوں میں سے صرف ایک پاکستان کے حصے میں آئی صنعتی املاک زیادہ تر ہندوؤں ہی کے پاس تھیں۔ صوبہ سرحد کے شمالی حصوں میں اور سندھ اور حیدر آباد کے اضلاع میں جو کچھ تھا وہ نا کافی تھا۔ اس وقت کی مسلم آبادی 400,000 افراد پر مشتمل تھی اور اس میں بہت بڑی تعداد میں ہندو آباد تھے اسی طرح لاہور اور پشاور جیسے مراکز میں بھی غیر مسلموں کی اکثریت تھی برطانوی راج نے ان شہروں اور دیہات میں بسنے والوں کے درمیان فرق اور نمایاں کر دیا تھا تقسیم ہند کے بعد نا صرف صنعتی اداروں کی اکثریت ہندوستان میں رہ گئی بلکہ پاکستانی علاقوں میں پیدا ہونے والے خام مال کے لئے منڈیاں بھی یہاں سے دور ہو گئیں۔ کپاس پیدا کرنے والے علاقے زیادہ تر مغربی پاکستان میں تھے جبکہ تمام تر صنعتیں بمبئی اور احمد آباد میں تھیں۔ مشرقی پاکستان اپنی اس محرومی کی وجہ سے، جو اسے ورثے میں ملی تھیں، بحران کا شکار رہا۔

”وہ کہتے تھے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمائے کا ارتکاز مغربی پاکستان میں ہو رہا ہے جب کہ مشرقی پاکستان کے حصے میں 1950 سے 55 تک میں سرمایہ کاری 20 فی صد تھی اور 1965 تا 1970 ء میں شرح صرف 36 فیصد ہوئی۔ وہ الزام لگاتے تھے کہ چونکہ اقتصادی انتظامات تمام مرکزی حکومت کے اختیار میں ہیں اس لیے مشرقی پاکستان کا حاصل کردہ زرمبادلہ بھی مغربی پاکستان میں خرچ ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کو مجبور کیا جا رہا ہے۔ کہ وہ مہنگے داموں مال مغربی پاکستان سے ہی خریدے انہیں یہی مال سستے داموں کسی اوٍر جگہ سے خریدنے کا اختیار نہیں۔ مشرقی پاکستانیوں کو ایک شکایت تھی کہ بیورو کریسی اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر مغربی پاکستانیوں کا بھاری غلبہ تھا“۔

ناول کا مرکزی کردار مزمل بچپن سے سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا دکھایا گیا ہے بعد میں یہ بصیرت ہی ہے جو ناول کو اس کے ذریعے آگے، بڑھتا دکھاتی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کا کردار سوچتا بھی ہے اور خود کلامی بھی کرتا ہے اس کا سیاسی و سماجی فلسفہ شروع سے آخر تک ناول پر چھایا ہوا ملتا ہے لیکن اس کے کردار میں کچھ کردینے کا عزم نہیں ہے اگریہ عزم ہوتا تو شاید کچھ کرتا بھی۔ لیکن حالات و واقعات کو دیکھ کر اس کے ذہن میں صرف خیالات کی فلم چلتی رہتی ہے اور مناظر اس کے تحت خود بخود سامنے آتے رہے ہیں۔ وہ شروع سے آخر تک ناول میں موجود ہے مگر اس میں وہ کشش نہیں جو سلسبیل اور بذلل کے کردارمیں ہے سلسبیل لاہور کی ہے اور بذلل بنگلہ دیشی اور مکتی باہنی۔ مکتی باہنی تحریک نے جس طرح سے طلباء کے ہاتھ سے قلم چھین کر انہیں ہتھیار پکڑا دیے تھے اس کی باز گشت ناول کے صفحات میں موجود ہے۔

”چھوڑو یونیورسٹی کو، جہنم میں جائے، مجھے کچھ یاد نہیں، بھول جاؤ کہ ڈھاکہ شہر میں کوئی یونیورسٹی بھی تھی“

بذلل اگرچہ مکتی باہنی ہے مگر انسانی ہمدردی اس کے ندر اس قدر موجود ہے کہ وہ اپنی جان کو مصیبت میں ڈال کر مسلسل مزمل کے گھر کی دیکھ بھال میں رہتا ہے اسے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ اس پرمصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ سکتا ہے اور موت کے منہ میں اُتر سکتا ہے۔ اس کی یہی بہادری اور بیباکی اس کو مزمل کے کردار سے آگے لے جاتی ہے اور قاری کو نا صرف اس سے ہمددری ہو جاتی ہے بلکہ وہ اس کے موقف کا قائل بھی ہو جاتا ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پاکستان کی تاریخ کا کبھی نہ فراموش ہونے والا واقعہ ہے جس کو جب بھی یاد کیا جائے دل خون کے آنسو روتا ہے یہی وہ آنسو ہیں جو الطاف فاطمہ نے ”چلتا مسافر“ میں پاکستان کی محبت میں ہر صفحے پر بہائے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).