ایدھی سوشل ویلفیئر کا بہترین نمونہ ہیں


\"zeeshan

عبدالستار ایدھی رخصت ہو گئے۔ اس خبر نے پوری قوم کو آبدیدہ کر دیا ہے۔ ان سے محبت تمام پاکستانیوں نے کی بغیر کسی مذہبی اور لسانی امتیاز کے، اور اس کا بدلہ بھی ایدھی مرحوم نے یوں دیا کہ اپنی خدمات میں بھی کسی قسم کے تعصب کو حائل نہ ہونے دیا۔ جب ایدھی صاحب حیات تھے، ان کے بارے میں استاد محترم وجاہت مسعود نے آٹھ جولائی کے کالم میں کیا ہی خوب لکھا تھا۔ لکھتے ہیں۔

’یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ہمارے عہد میں دنیا کے کسی خطے میں کوئی اور ایسا شخص بھی موجود ہے جس نے بغیر کسی امتیاز کے انسانوں کی خدمت کو اس رنگ میں ایمان کا درجہ دیا ہو اور اس پر عمل میں ایسی استواری دکھائی ہو۔ سوچ اور عمل میں ایسی یک رنگی پہلے دھن کی صورت اختیار کرتی ہے اور پھر یہ لگن زندگی کا طور بن جاتی ہے۔ تنویر جہاں نے کہا کہ شاید ایدھی صاحب کو اس برس نوبل انعام مل جائے۔ اس پر کسی نے کہا کہ اب ایدھی صاحب نوبل انعام سے ماورا ہوگئے ہیں۔ اب ایدھی صاحب خود ایک انعام ہیں۔ وہ لگن کے اس درجے کو پہنچ گئے ہیں جہاں سانس میں سُر پیدا ہوجاتا ہے اور سُر میں خوشبو اترتی ہے۔ اس سُر کی خوشی ارد گرد رہنے والے انسانوں میں اتر جاتی ہے‘۔

حقیقت یہ ہے کہ ایدھی صاحب ہماری تعریف و توصیف سے بھی ماوراء ہیں۔ The Huffington Post نے دو ہزار تیرہ میں انہیں تمام زندہ افراد میں سب سے عظیم انسان دوست شخصیت قرار دیا تھا ۔ محض انسانیت، محبت اور اخلاص کا نمونہ ہی نہیں وہ مجسم انسانیت تھے۔ انسانیت کی جملہ خصائص ان کی ذات میں ایک خوبصورت اظہار تھیں ۔ ان کی وفات پر محترم رؤف کلاسرا کی ٹویٹ تھی۔
’ساری زندگی ایدھی صاحب نے چندہ کے لئے بھیک مانگی، مگر کبھی بھی اپنے احترام کے لئے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ محبت اور احترام کمایا جاتا ہے (بھیک میں نہیں ملتا) اور ایدھی صاحب نے اسے کمال سچائی سے کمایا‘۔

میری اس تحریر کا موضوع ایدھی صاحب کی زندگی کے وہ چند اہم اسباق ہیں جو ہر اس شہری کے لئے غور و فکر کا سامان رکھتے ہیں جو انسانی مسرت، خدمت، اور ویلفئیر کو زندگی کا اہم ترین مقصد سمجھتا ہے۔

(ا) ہمارے ہاں عوامی خدمت اور ویلفئیر کے لئے ایک ہی راستہ عموما سمجھا جاتا ہے وہ ہے انقلاب یا سیاست و ریاست۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے اسے سیاست اور اقتدار میں آ کر یہ کام کرنا چاہئے۔ ایدھی صاحب نے عملی طور پر اس تصور کو رد کر دیا۔ انہوں نے اس قوم کی ایسی خدمت کی کہ جس کی نظیر پوری پاکستانی تاریخ میں مشکل ہے۔ ایک انقلاب پسند دوست شمعون سلیم صاحب ان کی وفات پر لکھتے ہیں۔

\”ضیا نے بھٹو کو پھانسی لگا دیا تھا۔ میں لاہور میں شاہی قلعہ کاٹ کر نکلا تو زندگی بالکل اکھڑ چکی تھی۔ کراچی میں مزدور رہنما اکرم دھریجہ نے مجھے ایدھی صاحب کے ہاں نوکری کے لئے بھیج دیا۔ میٹھادر میں میرا انٹرویو ستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے فائنل ایر کا امتحان دینے کے بعد پنجاب سوشل سیکورٹی میں چند مہینے انڈر سٹڈی میڈیکل آفیسر کے طور پر کام کیا تھا اور ابھی ابھی لاہور کے شاہی قلعے میں قید بھگت کے نکلا تھا۔ اور کہا ہو گا کہ میں انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے انہوں نے کہا تھا کہ آپ پہلے امتحان صاف کر لو پھر آنا۔ میں اس وقت پرولتاری انقلاب کے چکر میں بہت زیادہ تھا۔ میرے لئے فلاحی کام انقلاب کے لئے ذریعہ تھا اور ان کے لئے بذاتِ خود ایک مقصد۔ ہم دونوں اڑیل نسل کے تھے۔ زندگی کے ٹھیڈے ٹھوڑے کھاتا کھاتا میں ہالینڈ میں بیٹھا ہوں۔ اپنی دانست میں مقدور بھر سماجی سیاسی حصہ ڈالتے ہوئے میں بھی ایک نیم درویشی زندگی گذار رہا ہوں۔ مجھے بھی یاد نہیں کہ میں نے آخری بار کب جوتے اور کپڑے خریدے تھے۔ لیکن اپنے دو جوڑے شلوار قمیض اور گھسے ہوئے جوتوں کے جوڑے کے ساتھ جو ایدھی صاحب نے کیا وہ صحیح تھا۔ انہوں نے مجھے صحیح رد کیا۔ جو انہوں نے کیا، کرنے کا کام تو وہ تھا۔ ایدھی صاحب صحیح تھے۔\”

(ب) ہمارے ہاں سماجی خدمت کے دو ماڈل ہیں۔ ایک ماڈل ہے فارن ایڈ سے چلنے والی این جی اوز جو فارن فنڈنگ سے کام کرتی ہیں اور اپنے غیر ملکی ڈونرز کو جواب دہ ہوتی ہیں۔ دوسرا ماڈل جس کے روح رواں ایدھی صاحب تھے اس کے مطابق اپنی عوام سے ان کی استطاعت کے مطابق مالی امداد لی جائے اور اپنی کارکردگی کے ساتھ عوام کے حضور جوابدہ رہا جائے۔ فارن ایڈ کو میرے استاد معیشت دان ولیم ایسٹرلی Dead Aid کہتے ہیں کیونکہ یہ وسائل کا ضیاع ہے، پوری دنیا میں کھربوں ڈالر کی یہ امداد ضائع ہو رہی ہے کیونکہ فنڈ دینے والا کارکردگی کو صرف رپورٹس میں دیکھتا ہے اور فنڈ حاصل کرنے والا اسے محض رپورٹس میں دکھاتا ہے۔ ذمہ داری ، شفافیت اور وسائل کا بہتر استعمال اس میں اس لئے نہیں کہ ڈونرز کا سیلف انٹرسٹ اس کا نگران نہیں۔ ویلفئیر کے بیورو کریٹک ماڈل کی طرح فارن ایڈ ماڈل مسائل کے حل کے بجائے بذات خود مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔

ایدھی ماڈل پاکستان سمیت پوری دنیا بھر میں کامیاب ہے۔ اس کی بنیاد رپورٹنگ پر نہیں بلکہ کارکردگی پر ہے۔ ڈونرز کارکردگی کا خود مشاہدہ کرتے ہیں، اگر مطمئن ہوتے ہیں تو مالی امداد جاری رکھتے ہیں ورنہ مایوس ہو کر کسی اور قابل بھروسہ خیراتی ادارے کو امداد دینا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اصول وہاں پنپ رہا ہے جہاں اس دنیا کی مادی ویلفیئر مطلوب ہے۔ میری ناقص رائے میں محض آخرت کی سرخروئی کے وعدہ پر قائم ادارے بھی فارن ایڈ کی قسم ہیں، کیونکہ عوام کو حتمی طور پر معلوم ہی نہیں کہ ان کا فنڈ واقعی ان کے لئے جنت کے حصول کا ذریعہ بن رہا ہے یا دوزخ کے حصول کا۔

(ج) ویلفئیر کے مزید دو ماڈل ہیں۔ ریاست کا بیورو کریٹک ماڈل اور سماج کا پرائیویٹ ماڈل۔ ریاست اس ویلفئیر کے لئے زبردستی ٹیکسز لیتی ہے جبکہ سماج کا نجی بنیادوں پر قائم ماڈل رضاکارانہ تعاون کا مطلوب ہے۔ ریاست کی ویلفیر کے لئے قائم خدمات سے اگر آپ مطمئن نہیں تب بھی وہ آپ سے ٹیکسز لے گی وگرنہ وہ آپ کو جیل میں ڈال کر معاشی سرگرمیوں سے نکال پھینکے گی۔ نجی بنیادوں پر قائم فلاحی اداروں کی اگر آپ کارکردگی سے مطمئن نہیں تو آپ دوسرے اداروں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ کسی پر بھی بھروسہ نہیں تو بذات خود اپنے اردگرد کے لوگوں میں ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں اور اس کی نگرانی بھی کہ آیا ضرورت مند مالی امداد پر تکیہ کئے کاہلی کام چوری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ تو نہیں کر رہا۔ سماج اپنی امداد میں فرد کو ذمہ دار بناتی ہے اور اسے محنت و خودداری کی ترغیب دیتی ہے ، جبکہ ریاست اپنے ویلفئیر ماڈل میں کام چور، غیر ذمہ دار اور مستقل بھکاری بناتی ہے۔ آپ اس کی کیس اسٹڈی میں دنیا کی تمام ویلفئیر ریاستوں کی کارکردگی ملاحضہ کر سکتے ہیں کہ آیا ایک ضروری حد سے آگے ریاستی ویلفیئر ماڈل محنت کی ترغیب (Incentive to work ) کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے کہ نہیں ؟

اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن درج ذیل خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

۔ پاکستان کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس
۔ یتیم خانے
۔ مفت ڈسپنسریاں اور کلینک
۔ خواتین کے لئے محفوظ پناہ گاہیں
۔ Rehabilitation (بحالی) کے مراکز
۔ بے سہارہ بچوں کی کفالت اور دیگر خدمات
۔ دیگر قسم کی امدادی خدمات کے لئے ہیلپ لائن
۔ لاوارث و بے سہارا افراد کی تجہیز و تکفین
۔ گمشدہ افراد (Missing Persons ) کے لئے خدمات
۔ تارکین وطن کے لئے خدمات
۔ شادی مرکز
۔ لنگر ہاؤس
۔ خیراتی دکانیں
۔ جانوروں کے لئے ہسپتال
۔ ایدھی رکشہ روزگار
۔ان ہاؤس بیکری
۔ فری کچن
۔ روٹی پلانٹ
۔ ورکشاپ
۔ ایدھی Morgue (لاوارث غیر شناخت شدہ میتوں کے لئے مردہ خانہ )
۔ ایدھی بلڈ بنک
۔ خصوصی افراد (disadvantage ) کے لئے فنی تعلیم
۔ سٹریٹ چلڈرنز کے لئے مذہبی تعلیم
۔ فیملی پلاننگ اور زچہ کے لئے مشورہ گاہیں
۔ مفت قانونی امداد
۔ قیدیوں اور معذور افراد کی مالی و طبی امداد

ان سب سماجی سرگرمیوں کے لئے ایدھی فاؤنڈیشن کا کل سالانہ بجٹ ساڑھے دو ارب کے لگ بھگ ہے جبکہ ریاست کا بجٹ 4,394۔8 ارب روپے سے زائد ہے مگر اس کے باوجود ایدھی فاؤنڈیشن کی سوشل ویلفیئر میں کارکردگی ریاست سے ہزار گنا بہتر ہے ۔ لگ بھگ آٹھ ہزار رضاکار ان تمام خدمات کو ایک معمولی تنخواہ پر عاجزی و انکساری سے سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ریاست کے لاکھوں بیورو کریٹس استحقاق شدہ رتبہ کے باوجود بھی ویسی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہیں۔ آخر کارکردگی کے اس فرق کی کیا وجہ ہے ؟ نجی سیکٹر میں وسائل کا بہتر استعمال کیسے اور کیونکر ممکن ہو ہوتا ہے جبکہ ریاستی نظام برائے سماجی بہبود کیوں ناکام ہیں ؟ سوشل سائنس کے طلباء کے لئے اس کیس سٹڈی میں بہت کچھ سمجھنے کے اسباق ہیں۔

(د ) سوشل سائنس میں کلاسیکل لبرل ازم کا مقدمہ ہے کہ جتنا ریاستی سرگرمیاں اپنے حجم میں بڑھتی جاتی ہیں سوسائٹی اتنی کمزور ہوتی جاتی ہے۔ کارکردگی کے مقابلہ میں ریاست فرد اور معاشرہ سے کم تر ہے۔ ریاست اپنی سرگرمیاں زور، جبر، اور استحصال سے سرانجام دیتی ہے جبکہ فرد اور سماج اپنی سرگرمیاں باہمی رضاکارانہ تعاون و اشتراک سے سرانجام دیتے ہیں۔ پاکستان میں سماج اپنے پوٹینشل سے ناواقف ہے۔ ہماری گلی محلے میں کوئی ضرورت مند ہے تو اس کی مدد کرنا اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ترغیب و مدد دینا ہماری ذمہ داری ہے نہ کہ اس ریاست کی جس کا دماغ و دل بیورو کریٹ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاکر شجاع آبادی جنوبی پنجاب کی عوام کا شاعر ہے اگر وہ کسی ضرورت میں ہے تو اس کی مدد کرنا جنوبی پنجاب کی عوام کا کام ہے۔ یہ کام جب آپ ریاست کے ذمہ لگاتے ہیں تو اقتدار اور بیورو کریٹک اداروں کو راستہ ملتا ہے کہ وہ اپنے من پسند دانشوروں کو مالی مدد دے کر رائے عامہ پر سوار کریں اور آزاد علم و مکالمہ کی ثقافت کو تباہ کرتے ہوئے اجارہ دار طبقات کے مفادات کے تابع کرنے کے لئے نت نئے نقب لگائیں۔

ایدھی صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ سو سائٹی ہی قابل بھروسہ ہے۔ انہوں نے سوسائٹی سے رجوع کیا اور سیاست و اقتدار سے دور رہے۔ ایدھی صاحب جو مثال چھوڑ گئے ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن جو ماڈل ہمارے سامنے پیش کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب اپنے سماج کی نجی طور پر خود ذمہ داری لیں۔ ہم ریاست سے مطالبات کرنے کے بجائے سماجی بہبود کے مسائل خود حل کریں۔ ایدھی ایک روشن مثال چھوڑ گئے ہیں۔ آئیے ایدھی کے نقش قدم پر چلیں، ہمارے شہر اور محلے ایدھی فاؤنڈیشن طرز کی فاؤنڈیشنز کی مدد سے اپنے ویلفیئر کے مسائل خود حل کریں۔ایدھی صاحب سے محبت و عقیدت کا اظہار محض ان کے نقش قدم پر چلنے میں ہے۔ ایدھی صاحب بطور ایک بہترین نمونہ ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments