میں نے منٹو بدل دیا ہے


کسی روایت کی عمر اس کو یاد رکھنے اور بوقت ضرورت اس کو استعمال کرنے تک ہوتی ہے جب جذبے بدلتے ہیں تو اس سے بہت پہلے ہمارے دل بدل چکے ہوتے ہیں ؛ بس موقع وار کا نہیں ملتا ورنہ ہم اظہار میں دیر کرنے والے کب ٹھرے ہیں۔ ایک کنال کے ”پوش“ علاقے کے گھر میں ہمارے ہمسائے جو اپنی دیوار پر رومال ڈالے تو نظر کو بھلا نہیں لگتا اور اس کے گھر میں لگے پودے کی تھوڑی سی چھاؤں ہماری گھر میں پہنچے تو یہ بھی گراں گزرتی ہے۔ ایسے انوکھے دل کو کیا مورد الزام ٹھرایں، قصور تو اس ماحول کا ہے جس میں وہ دھڑک رہا ہے ؛ اور ماحول ہم ان روایات اور قدروں سے بناتے ہیں جس کی آج کے جدید دور میں شاید براہ راست ضرورت نہیں پڑتی۔

ہم باقاعدہ بہت سی چیزوں سے منہ موڑ رہے ہیں یا ان پر پابندی لگا رہے ہیں۔ مگر چھپ چھپ کر آن لائن کی دنیا میں تعلق کے رشتے جو خون سے بھی زیادہ مضبو ط نظر آتے ہیں بنا کر نبھا رہے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہی سنیں ”منٹو“ پر بنائی نندتا داس کی فلم کو دیکھنے کا بلاوہ آیا۔ دل میں سوچا ارے یہ تو مزے ہو گئے، سینما میں تو لائن میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لیتے اور پھر اکڑ کر فلم دیکھتے۔

میری ایک پر وقار سہیلی نے تو کہا دیکھو ہم نے تو آرام دہ صوفوں والی کرسیوں ہر بیٹھ کر پرسکون، چائے کی گرم چسکیاں لگاتے فلم دیکھی ہے۔ ارے میں تو دعایں دیتی ہوں اس اپنی حکومت کو جس نے اس فلم کو عام لوگوں میں دکھانے کی اجازت نہیں دی۔ ویسے بھی منٹو غریبوں کا موضوع نہیں؛ منٹو تو ایک خاص کلاس کو سمجھ آتا ہے۔ میں تو ابھی اسے کوئی جواب دیتی میری ایک اور دوست جس کو منٹو سمجھ میں نہیں آتا مگر وہ اپ ڈیٹ رہنے کے لئے ”ابو“ اور منٹو دیکھنے پہنچ گئیں؛ وہ فلم ختم ہونے کے بعد بولی مجھے تو یہ فلم سرمد کھوسٹ کی فلم منٹو کا چربہ لگی ہے۔

اب میں اپنی دوست کو کیا بتاتی کہ بی بی پھول سے خوشبو اور دریا سے پانی کا تعلق ہے۔ جیسے سچ کو جتنا بھی بدل دیں اہل نظر کو اندھیروں میں چھپا در نایاب نظر آ جاتا ہے اسی طرح تکنیک، فارمولا اور منظر یا کاسٹ بدلنے سے زندگی کی روح اور اس کی ضروریات کو نہیں بدلا جا سکتا۔ ہم چاند یا مریخ پر بھی بھوک کا انتظام اور انصرام کرتے ہیں۔ ”بھوک بہت ظالم مشہور ہے“ مگر یہ بھوک حقیقت آشنائی اور قلب و نظر کے وسیع اور گہرے کینوس پر بنی تصویر کو بھی برہنہ کردیتی ہے۔

اس ”سائبر چھپا چھپی“ کے دور میں آج کا منٹو بدل گیا ہے ؛ منٹو کے منظر نامے میں سفر تھا، عذاب تھا، باوقار کی چیخ تھی، نیکی اور بدی آمنے سامنے تھی، مریض امیر اور ظالم تھا، مسیحاغریب اور بے خوف تھا۔ مگر اب تو منٹو ایک تفریح ہے امراء، اسٹیسس سمبل ہے پڑھے لکھوں کا۔

ایمان سینے میں اور اندیشے ذہن میں لئے میں واپس اپنے گھر تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے رنگ روڈ سے چندمنٹوں میں ڈیفنس پہنچی کہ کہیں اگلے ”اوپن ہاوئس“ کا وقت نہ نکل جائے!

جس طرح عالم کو علم کی اور غریب کو روٹی اور عزت کی بھوک لگتی ہے اسی طرح مجھے اس اوپن ہاوئس کی بھوک لگی ہے جہاں جمہوریت کے فوائد کے لیکچرز اور انسانی فلسفے کے پیچ وخم کو ہم سب ظالم اور مظلوم مل کر بہٹھ کر سنیں اور پرکھیں۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).