اپوزیشن اتحاد ’حکومت اور جمہوریت؟


چند ماہ کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بننے والے اتحاد کو سنجیدہ سیاسی و عوامی حلقے قبل از وقت قرار دے رہے ہیں کیونکہ کسی بھی نئی حکومت کے قیام کے بعد اس کی سمت کا تعین ہونے میں کم از کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکومت اس عرصہ میں اپنی سمت کا تعین نہ کر سکے پھر ایسی حکومت کے لئے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مواقع کم اور مشکلات زیادہ ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو اتحاد عمل میں آیا ہے اس سے یقینا حکومت کی مشکلات میں اضافہ تو ہوگا لیکن یہ اتحاد بھی ماضی کے اتحادوں کا عکاس ثابت نہ ہو۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جماعتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے اور سہارے دینے اورگرانے کے لئے مفاہمت اور سازشوں کی تاریخ آج کے ہونے والے اتحاد پر بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مسلم لیگ ن میں ایک مضبوط سنجیدہ دھڑا موجود ہے جس نے ہمیشہ حکومت اور اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کو مسترد کیا ہے۔ مفاہمتی دھڑے میں میاں شہباز شریف ’چوہدری نثاراور راجہ ظفرالحق سمیت کئی سنیئرعہدیداران شامل ہیں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تو متعدد بار ڈھکے چھپے انداز کی بجائے کھلم کھلا میاں نواز شریف اور اس کے قریبی حواریوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ اداروں کے ساتھ نہ ٹکرانے کا مشورہ دیا۔ لیکن میاں نواز شریف کے گرد سائے کیطرح منڈلاتے خوشامدی ٹولے نے نہ صرف ان کو بند گلی میں دھکیل دیا بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیا۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب بھی خوشامدی شریف برادارن کو مفاہمت کی بجائے ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن کرنے کا لائحہ عمل اپنائے ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری جن کا پاکستان کی سیاست میں ایک زیرک سیاستدان کے حوالے سے بڑا کلیدی کردار رہا ہے انہوں نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کے بل بوتے پر کبھی اپنی شخصیت اور پارٹی کومشکلات کی منجدھار میں نہیں دھکیلا اور ان کا سیاسی کیرئر ملک میں موجود سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لئے کرپشن کے الزامات کے باوجود ایک جاندار مثال کے طور پر موجود ہے۔

پیپلز پارٹی کے گرد نیب کا جونہی گھیرا تنگ ہوا آصف زرداری اپنی اور پارٹی کی بقاء کے لئے میدان سیاست میں ترپ کے پتوں کے ساتھ حکومت اور اداروں کو زیر کرنے کے لئے اتر آئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کر کے سیاسی فضا کو جنگ و جدل میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ بد قسمتی سے ان دونوں جماعتوں کی اپنے اپنے اقتدار کو حاصل کرنے ’سہارا دینے کے لئے گٹھ جوڑ کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی ہی جمہور کو جمہوریت کے ثمرات سے محروم رکھنے کی تاریخ بھی ان کی ناکام جمہوری حکمرانی پر قدغن لگائے ہوئے ہے۔

پاکستان واحد ملک ہے جہاں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان اور نعرے بازی کی سیاست کرنے والے سیاستدان موجود ہیں۔ جو اپنے ذاتی مفادات اور نمود و نمائش میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنے قومی فرائض اور عوام کے حقوق کو یکسر بھلا چکے ہیں۔ مضبوط جمہوریتوں کو ایماندار اور باوقار سیاسی قیادت ’متحرک اور باشعور سول سوسائٹی‘ انتھک بلدیاتی نمائندے ’شہری انتظامیہ‘ ذمہ دار پریس ’خواتین‘ نوجوانوں اور لسانی اقلیتوں کی شرکت درکار ہوتی ہے۔ حکمرانوں کا عوام کو جمہوری حقوق فراہم کرنا کوئی عوام پر احسان نہیں ہے دنیا میں جمہوری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جمہوریت سیاستدانوں سے باز پرس کرنے ’آزاد میڈیا کا تحفظ کرنے‘ طاقت کے سامنے کلمہ حق کہنے اور خواتین ’نوجوانوں‘ اقلیتوں سمیت ہر کسی کو مساوی حقوق دینے کا نام ہے۔

پاکستان میں جمہوری حکومت تو صرف عوام کو دلاسہ دینے کے مترادف ہے آمریت پسند ذہنوں کے حامل حکمرانوں نے عوام کو مسائل کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا جہاں سے نکلنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ مہنگائی ’بیروزگاری‘ لوڈشیڈنگ ’کرپشن و بدعنوانی‘ اقرباء پروری ’انصاف کی عدم دستیابی جیسے مسائل جمہوری حکمرانی کے دعویداروں کی آمرانہ پالیسیوں پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ آج اگر ان کے مفادات کے خلاف عوام کے وسائل اور قومی خزانے کی باز پرس کے حوالے سے احتسابی ادارے متحرک ہوئے تو یہی جمہوریت کے پروردہ حکومت اور ریاستی اداروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر حساب چکتا کرنے سے سراسر انکاری ہیں۔

یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ایلیٹ کلاس کی باز پرس کے لئے کوئی خودمختار مؤثر نظام نہیں ہے۔ جہاں احتساب سے بچنے کے لئے میثاق جمہوریت کے نام پر نام نہاد اتحاد وجود میں آجاتے ہیں۔ عوام کے نام پر وفاق اور اداروں کو سربازار للکارا جاتا ہے۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کے قائدین نسل نو کے دل و دماغ میں ایسی منفی طرز سیاست کے ذریعے کس قسم کے سیاسی شعور کی آبیاری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ حالات ان کے لئے غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ پارٹی رہنماؤں کی شخصیت قابل تقلید ہوتی ہے ان کے بے شمار فالوورز ہوتے ہیں جو ان کے کردار و عمل کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے ہمیشہ خاندانی سیاست کو فروغ دیا جس کے باعث موروثی سیاست نے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ ان دونوں جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور اخلاقی اقدار کو روندنے کی اصل وجہ بھی صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہی رہی ہے۔ بلا شبہ آج ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور میرٹ پر مبنی معاشرے کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ سابقہ اداوار میں کرپشن و بدعنوانی کے باعث میرٹ اور قانون و آئین کی حکمرانی کو بلڈوز کیا جاتا رہا اور عوام بے وسیلہ ہو کر نا انصافیوں کے بوجھ تلے دب کر راندۂ درگاہ ہوتے رہے جبکہ حکمران اشرافیہ طبقات کی من مانیاں اور ناجائز ذرائع سے قومی خزانے اور قومی وسائل کے لوٹ مار کی کہانیاں زبان زد عام رہیں۔

یہ ملکی حالات کرپشن و بدعنوانی کے خلاف بہت بڑے آپریشن کے متقاضی تھے تاکہ عوام کو حکمران اشرافیہ کے طبقات کی جانب سے مسلط کردہ استحصٓالی نظام سے خلاصی حاصل ہو سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جو اپوزیشن اتحاد وجود میں آیا ہے یہ سب چور اور چوکیدار کو بچانے کے لئے ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو بھی اب احتساب سے آگے ایک قدم بڑحاتے ہوئے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینا چاہیے کیونکہ عوام کو ریلیف نہ ملنا بھی اپوزیشن اتحاد کو تقویت فراہم کررہا ہے جو کہ حکومت کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔

جب تک حکومت معاشی حالات کو درست کر کے عوام کو ریلیف کی صورت تبدیلی کی جھلک سے آشنائی نہیں دیتی، حکومت کے لئے مشکلات بدستور برقرار رہیں گی۔ عوام کو حروف تہجی میں بٹی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے کوئی سروکار نہیں، اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہی تو پھر یہی تبدیلی حکومت وقت کے لئے سوہان روح بن جائے گی۔ اس وقت غریب دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر عوام کی شہ رگ سے لہو نچوڑ رہا ہے۔ میڈیا میں حکومت کی ناکامی کے ترانے بجائے جا رہے ہیں، اس کے باوجود حکومت کو اصل صورتحال کا ادراک نہیں ہے۔ اگر عمران خان کے گرد ایسے افراد موجود ہیں جو سب اچھا کے آگے فل سٹاپ لگا رہے ہیں تو پھر حکومتی کارکردگی کا زائچہ سب اچھا کی نفی کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنے گردوپیش کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اب بھی اگر عوام کو ریلف فراہم نہ کیا گیا تو مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ سابقہ حکومتوں کے کردار و عمل کے انجام کوپیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو مفاد عامہ کے حق میں ترجیحی بنیادوں پر فیصلے کرنے چاہییں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).