مائنڈ سائنس، ریکی اور روحانی ٹھرک


دور قدیم میں مڈل کلاس یعنی متوسط طبقہ وجود نہیں رکھتا تھا۔ تب یا تو امراء تھے یا عوام تھے۔ عوام میں کوئی تھوڑا اوپر کوئی تھوڑا نیچے تو ہوتا تھا مگر عیاشیاں عوام کے لئے سمجھ لیجئے ممنوع ہی تھیں۔ تب کوئی آپ کو پنکھا جھلے یہ بھی ایک عیاشی ہی تھی اور یہ تک صرف امراء کو میسر تھا۔ عوام جو تھے، وہ عام تھے، یعنی وہ مخصوص پیشوں سے منسلک ہو کر برادریوں کی صورت میں جیتے تھے۔ باپ کا پیشہ بیٹا اختیار کرتا، پیشے بھی حقیقی زندگی کی ضرورتوں سے متعلق ہوا کرتے، جیسے سپاہ گری، لوہاری، کھیتی وغیرہ۔

مگر ’’پھر نیا زمانہ آیا اپنے ساتھ گوگو لایا‘‘۔ اب مشینوں نے انسانوں کو فارغ وقت بہت سارا دے دیا۔ ہزاروں لاکھوں افراد کو تو اتنا فارغ کیا کہ بے روزگار ہی کر دیا۔ پھر کسی بھی کام میں جسمانی محنت بہت کم ہو گئی بلکہ سمجھ لیجئے کہ ختم ہی ہو گئی۔ فراوانی نے مڈل کلاس کی بنیاد ڈالی اور اس مڈل کلاس، اس متوسط طبقے نے جو چیز ایجاد کی اس کا بڑا پیارا سا نام ہے ’’بے کیفی‘‘ یعنی بوریت۔ سلیم احمد کا شعر ہے

روح پر چھا رہی ہے بے کیفی

نشہ زیست کر رہا ہے اداس

ویسے یہ بے کیفی کچھ متوسط طبقے سے مخصوص نہیں۔ اس کا تعلق بنیادی طور پر معاشرے میں موجود روحانیت کے خلا سے ہے۔ مگر غریب کا تعلق کیونکہ درد و غم سے رہتا ہے اور درد و غم میں خدا یاد رہتا ہے، اس لئے ویسا روحانی خلا پیدا ہوتا نہیں جیسا کہ امرا اور متوسط طبقے کے حصے میں آتا ہے۔ مگر امرا کے پاس پھر بھی ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے کہ جو انہیں روحانی خلا سے باآسانی نکال بھی سکتا ہے۔

ان کے قبضے میں دنیا بہرحال ہوتی ہے اور اس کے ہونے کا تجربہ، طاقت و قدرت کا تجربہ دنیا کی بے ثباتی کا احساس بھی دلاتا ہے اور ایسا شخص دنیا تیاگ دینے کی بھی جرات کر سکتا ہے کہ جو دنیا رکھتا ہے۔ مگر متوسط طبقے کے پاس بس حسرت دنیا کے سوا کچھ ہوتا نہیں۔

80ء کی دہائی میں یہ رواج عام تھا کہ لوگ ٹی وی، فرج اور گاڑی کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنواتے تھے، 2000ء میں راقم نے لاہور کی ایک منی بس میں ایک مسافر کو کنڈکٹر کے کرائے کے استفسار پر یہ کہتے ہوئے سنا تھا ۔

’’میں نے گھڑی پائی ہے، میں تواڈا کرایہ چوری کروں گا؟‘‘

ہمارے متوسط طبقے کی بڑی تعداد نے ’’گھڑی پائی‘‘ ہے ۔ مگر اسی گھڑی کو سنبھال کر رکھنے میں مرے جاتے ہیں۔

مڈل کلاس زندگی کا خلاصہ اکبر الہٰ آبادی نے بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔

 ” بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے‘‘۔

اس پوری دوڑ میں انسان ایک جانب بالکل بے بس بھی ہوتا ہے اور دوسری جانب بہت فارغ بھی۔ ہفتے اتوار کی چھٹی، عید بقر عید کی چھٹیاں، کرسمس اور سال نو کی چھٹیاں، پھر دفتر سے واپس آ کر بھی مڈکل کلاسیے کو کافی وقت مل جاتا ہے۔ وہ فلمیں دیکھے تو کب تک؟ اسکول کالج کی پہلی محبت کو یاد کرے تو کب تک؟ وہ تو کسی رشتے دار کی موت پر بھی اس کی موت کے بعد آنے والے پہلے اتوار کو ہی جاتا ہے۔ بہت دفعہ تعزیت فون پر ہوتی ہے یا واٹس اپ یا فیس بک پر۔

مڈل کلاسیے کے پاس بہت سارا وقت ہے بوریت و بے کیفی کے لئے۔ پھر وہ اپنی ڈگریاں سجاتا ہے، ایوارڈ لیتے ہوئے تصویریں فیس بک پر ڈالتا ہے، پھر بڑے فخر سے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنے مہمانوں کو بتاتا ہے کہ وہ کبھی دفتر دیر سے نہیں گیا یا اس نے کبھی شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا (ویسے ہاتھ لگانے کو ملی بھی کب؟) یا اس کو ایڈز نہیں ہے۔ مگر جب وہ اپنی ناک اونچی کر رہا ہوتا ہے تو مہمان بھی بور ہو کر اپنے موبائل میں گم ہو چکا ہے۔

وہ اپنے یہ کارنامے بیوی کو بتاتا ہے تو وہ بھی بے دلی سے سن رہی ہے، وہ تو ابھی اپنے اسکول کے پہلے عاشق کے خیالوں میں گم ہے۔ اسے اس آدھے گنجے اور پیٹ نکلے بڈھے سے بوریت ہو گئی ہے۔ پھر مذہب صرف عبادت ہے متوسط طبقے کے لئے۔ مڈکل کلاسیا خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس مرتبہ اس کا 10 فیصد سے زیادہ انکریمنٹ ہو اور جب اس کا 20 فیصد انکریمنٹ ہوتا ہے تو بھی وہ دعا کر کے غم میں روتے ہوئے رب سے پوچھتا ہے کہ اس کا 20 فیصد انکریمنٹ اور اس کے پاس کا 40 فیصد کیوں؟ مڈل کلاسیا بڑی جلدی گھڑی دیکھ کر دعا کرتا ہے، وہ خدا سے دنیا طلب کرتا ہے، وہ دل سے ہدایت نہیں مانگ سکتا، اس لئے کہ حق تو محلات میں بھی عبادت کرنے سے نہیں مل جاتا تو اس 3 بیڈ روم اور ہال کی مملکت میں بھلا کیوں مل جائے گا؟

حق محنت طلب کرتا ہے، مڈل کلاسیا آسانی پسند ہے۔ وہ روحانیت کی سچی راہ پر چلنے کے بجائے مذہبی کتب پڑھنے لگتا ہے۔ اپنی بوریت کو مناظرہ بازی سے مٹانے کی سعی کرتا ہے، مگر اس میں بوریت پھر آ جاتی ہے۔ خلا پھر آ جاتا ہے، مڈل کلاسیا خودکشی کرنے سے بھی ڈرتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کے بعد اس کی “میرا” گاڑی اور کی “فلپس” استری کا کیا بنے گا؟ آخر میں مڈل کلاسیے کی روحانی ٹھرک اسے ریکی اور مائنڈ سائنس کے ڈھونگیوں کے پاس لے جاتی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ سکون کہیں بھی نہیں، ممکن ہی نہیں۔

شاہنواز فاروقی صاحب کے بقول ’’تجربے کے گڑھے کو دلیل کی مٹی سے نہیں پاٹا جا سکتا‘‘ ۔ اسی طرح روحانیت کے خلا کو روحانیت کے سوا کسی اور شے سے پر نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).