حجامہ: سنت کے نام پر ایک اور ڈرامہ


پاکستان کے ہرچھوٹے بڑے شہر میں ”حجامہ کلینک“ رواج پکڑ رہے ہیں۔ بات کاروبار تک ہوتی تو جہاں میڈیکل کے نام پر کئی اور ناٹک کھیلے جا رہے ہیں، وہاں یہ بھی سہی۔ چونکہ اسے تقدس کا رنگ دے کرعوام کو ٹریپ کیا جارہا ہے تو اس پہ لکھنا ضروری معلوم ہوا۔ مضمون ذرا طویل ہے، اس لئے اپنی معروضات کا خلاصہ شروع میں عرض کر دیتا ہوں۔

1۔ پہلی بات یہ کہ سائنس یا دین میں ”طب نبوی“ نامی کوئی ٹرمینالوجی نہیں ہے۔ یہ اصطلاح، ہمارے خوش ذوق احباب کی ایجاد ہے۔ جناب نبی کریم، انسانوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے نہ کہ ڈاکٹری کرنے کے لئے۔

2۔ بر تقاضائے بشریت، نبی کریم جب کبھی بیمار پڑے تو اپنے زمانے میں مروج بہترین طریقہ علاج اختیار کیا۔ پس اپنی بیماری کا، اپنے زمانے کے لحاظ سے بروقت اور جدید ترین علاج کرانا ہی سنت عمل ہے۔

3۔ شہد اور کلونجی سمیت کسی بھی چیز کو اسلام نے بطور دواء استعمال کرنے کا ”حکم“ نہیں دیا۔ قرآن وحدیث میں، دیگر فنون کی طرح، فنِ طب کے ماہرین کو بھی چند اشارے دیے گئے مگراسے حجت نہیں بنایا۔

4۔ آج سے پندرہ سال قبل بڑے زور وشور سے حجامہ والی ”سنت“ کو پروموٹ کیا گیا۔ (شروع میں اس کے لئے صرف 4 احادیث اور ابتک ماشاء اللہ 70 احادیث دریافت ہو چکی ہیں) ۔ اس بارے ہمارا موقف یہی ہے کہ یہ سب پیٹ کا دھندہ ہے۔

5۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حجامہ کے کاروبار کو ریگولیٹ کیا جائے یعنی اس کی طبی گریڈیشن اور رجسٹریشن کی جائے۔

اب مذکورہ بالا پانچ نکات بارے تٖفصیل پیش کرنے قبل ذرا اپنی ذاتی کارگذاری عرض کردوں (یہ بتانے کے لئے کہ خاکسار پہلے ”حجامہ“ کا حامی کیوں تھا؟ اور اب ناقد کیوں ہے؟) ۔

میں نے ابتک کل تین مرتبہ حجامہ کروایا ہے۔

کسی زمانے میں شیشے کا گلاس گرم کرکے اس کو جلد پر رکھا جاتا، وہ چپک جاتا جس سے کھال کے اس حصے تک خون کی سپلائی رک جاتی تھی۔ جب وہ حصہ سن ہو جاتا تو گلاس ہٹا کر، تیز چاقو سے ہلکے کٹ لگا کر، کچھ خون نکال دیا جاتا۔ (چائنہ والوں نے ”سنت“ کی فکر کرتے ہوئے اس کے لئے پلاسٹک کے کپ اور پمپ بنادیئے ہیں۔ اب یہ کپ جلد پہ رکھ کر، پمپ سے ہوا باہر کو کھینچی جاتی ہے جس سے وہ حصہ سن ہوجاتا ہے اور بلیڈ سے کٹ لگائے جاتے ہیں) ۔

پندرہ سال قبل ہمارے محلہ (عزیزیہ۔ جدہ) میں ہمارے ایک پاکستانی تبلیغی دوست (جو کہ انجنئر ہیں) ، انہوں نے سنتِ حجامہ بارے مہم چلائی۔ (شروع میں احیائے سنت کی خاطر ”فری حجامہ“ کیا کرتے تھے، اب ”تجارت کی سنت“ کی نیت ہے اورخاصی ”برکت“ ہے) ۔ ان کے گھرمیں ”تلبینہ“ والی سنت کے مٹکے بھرے ہوتے تھے۔ تواضع کے لئے بھی کلونجی کی پھکی اور شہد ملا ستو کا شربت دستیاب تھا (وہ بھی لکڑی کے ”سنت“ پیالے میں)۔ جَو کی روٹی کے ساتھ کدو اوراونٹ کا گوشت تناول فرماتے۔ غرض قرن اول کا دسترخوان تھا۔ (دعا فرمائیں خدا انکوصحت دے کہ آج کل گوناگوں امراض کا شکار ہیں) ۔

حجامہ بارے، خاکسار کو اس وقت بھی شرح صدر نہیں تھا مگر اپنے تجربہ کے لئے ان سے حجامہ کروایا تھا۔ (ان کا ہاتھ ”بھاری“ ہے تو بلیڈ مارتے ہوئے، اکثر ”مریضوں“ کی چیخیں نکلوا دیا کرتے ہیں) ۔

چونکہ حجامہ والی جگہ پہ خون کی گردش رک چکی ہوتی ہے اور پریشر کی وجہ سے اس کی رنگت قدرے سیاہ ہوجاتی ہے تو موصوف، اپنے مریضون کو خون کی رنگت دکھا کریہ بھی انکشاف کرتے کہ یہ جادو، نظربد، سایہ وغیرہ کا اثر تھا جوحجامہ سے ختم ہوگیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

اگرچہ اسی وقت ہی اس ”علاج“ کا کھوکھلا پن عیاں ہو گیا تھا تاہم میں کافی عرصہ، اس کی حمایت کرتا رہا تھا۔ انگریزی طریقہ علاج میں جس طرح لوٹ کھسوٹ شروع ہوچکی ہے اور غریبوں کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے تومجھے خیال ہوا کہ خدا نے ان ظالموں کو شرمسار کرنے کے لئے، حجامہ میں شفا رکھ دی ہوگی۔ (ظاہر ہے کہ شفا، صرف خدا کے ہاتھ میں ہے، چاہے جہاں رکھ دے) ۔ تصور کیجئے کہ ایک فارن ڈگری ہولڈر ڈاکٹر، کروڑوں کا ہسپتال بنا کر، خدا کی مخلوق کو لوٹنے کا پروگرام بنائے بیٹھا ہو مگر ”ویہلا“ بیٹھا ہو اوراسکے سامنے والے سبزی فروش کے پاس مریضوں کا رش لگا ہو تواس کی کیا حالت ہوگی؟ چنانچہ اس خیال کی بنا پر، حجامہ کی حمایت کرتا تھا کہ ایک غریب آدمی، اپنے یقین کی بدولت اگر اس سستے علاج سے شفا یاب ہوجائے (جبکہ ذرا سا خون نکلنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا) تو اس میں کیا برا ہے؟ ۔

چنانچہ دوسری بار حجامہ، تبلیغی جماعت میں نکل کروایا تھا۔ اسلام آباد کے پڑھے لکھے احباب کے ساتھ بھلوال شہر میں تشکیل تھی۔ وہاں کا ایک مقامی ویگن ڈرائیور، حجامہ لگانے کا کام کرتا تھا جسے امیر صاحب نے بک کر لیا تھا۔ صبح ”ڈاکٹر صاحب“ اپنی سواریاں اتار کر، اپنے آلات جراحی سمیت (کوئی درجن بھر پلاسٹک کپ۔ پھونکنا، کچھ شاپر اور بلیڈیں) جماعت والوں کے امراض کا علاج کرنے تشریف لائے۔ دوسروں کی ترغیب کی خاطر، خاکسار نے بھی تین کپ لگوائے (30 روپے فی کپ، 12 مولوی، اور ہر مولوی کے بدن پہ کئی کپ لگائے جا سکتے تھے) ۔ ”ڈرائیور ڈاکٹر صاحب“، پھونکنے سے کھال کھینچنے کے بعد، ہر ”مریض“ سے فیڈبیک بھی لیتے تھے۔ ”ہلکا محسوس ہورہا ہے نا؟ “۔

عرض کیا۔ ”جی ہاں، پھونکنے سے کھال کھنچوانے اور بلیڈ کھانے کے بعد، رلیف ہی محسوس ہوگا“۔

تیسری بار حجامہ، اپنی بڑی ہمشیرہ کے ہاتھوں کروایا تھا مگرصرف ان کا دل رکھنے کے لئے۔ عالمہ ہیں۔ تبلیغی جماعت میں کئی ملکوں کا سفرکر چکی ہیں۔ مستورات کو نہ صرف فی سبیل اللہ حجامہ کرتی ہیں بلکہ کئی ایک کو یہ ”فن“ سکھایا بھی ہے۔ ان کی ”پروفشنل رائے“ تھی کہ ناچیز پر ”اثرات“ ہیں جو صرف حجامہ سے دور ہوسکتے ہیں۔ بہن کے خلوص کو رد نہیں کرسکتا تھا مگر یہ بھی انکشاف ہوا کہ ”حجامہ“ کا ”علم“ مزید ایڈوانس ہوچکا تھا۔ مثلاً منگل کی صبح، بعد فجر، نہار منہ حجامہ کرانا بہترہے کہ پتہ نہیں کس حضرت سے روایت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3