ایدھی تم آنکھیں رکھ لیتے
ایدھی آنکھیں رکھ لیتے تم
کوئی ان سے کیا دیکھے گا
جو اوروں کو نہ دکھتا ہو
بھوک، گھٹن، غربت کے مارے
گھر سے بھاگی عورتیں، بچے
لاشیں، زخمی ،
کوڑے پر، گندی نالی میں
ادھ کھائے ، ادھ کچرے بچے
شاپنگ بیگ میں پڑے گنہ
وہ تو ہم سب دیکھتے ہیں
سب کچھ اب بھی دیکھتے ہیں
توبہ توبہ کرتا کوئی
کوئی نفرت سے تھوکے، اور
جننے والی کوکھ کو گالی دے
اور بس۔۔۔۔۔
سکھ کا جھولا کون ہلائے
کون کسی کا درد سمیٹے
دکھ کے ننگے جسم پہ سکھ کی
شال اڑھانے والا کون؟
آنکھیں تو سب رکھتے ہیں
سب دیکھتے ہیں
ایدھی تم آنکھیں رکھ لیتے
کسی کو اپنا دل دے جاتے
Latest posts by ڈاکٹر فاخرہ نورین (see all)
- فیس بکی سکھیوں کا فیمینزم :جوابِ شکوہ - 24/03/2023
- جوڈیشل ایکٹوازم سے اوور ایکٹنگ تک - 25/06/2018
- واااااہ یوسفی - 21/06/2018
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).