ایدھی کی آنکھوں سے کچھ مت دیکھنا


ایدھی کی آنکھوں سے کیا دکھے گا؟ ایک بے اماں ملک میں بے مہر شہروں کی بے سایہ گلیاں کہ چھتنار درخت کٹ جائیں تو تیز دھوپ گھروں میں رستہ بنا لیتی ہے۔ کیا دکھے گا میاں ان آنکھوں سے تم کو؟ بارود کا دھواں کہ پستول کی نال سے لپکتا شعلہ یا جڑ سے اکھڑ کر زمیں بوس ہوتا جوان وجود۔ کچرا کنڈی کے تعفن میں ایک ہمکتی مہکتی زندگی کو بھنبوڑتے کتے نظر آئیں گے یا ان کو ولدالزنا کہنے والےانسان۔ خدا کو گلی گلی، منبر منبر، سی ڈی سی ڈی اور چینل چینل بیچنے والے مداری دیکھو گے یا سر بازار سروں سے ردائیں کھینچنے والے بھیڑئیے۔ گیتا کو جمیلہ بنانے والے مٹھو میاں سے نظر ہٹاو گے تو سنہری کلس والے مندر کو گراتی کدال پر آنکھ ٹھہر جائے گی۔ ہسپتال کے گرم تپتے غلیظ برآمدوں میں ننگے اسٹیل کے اسٹریچروں پر کرلاتے بلکتے مریضوں کو شفا کی آس میں ہاتھ باندھے نہیں دیکھو گے تو دور کرامویل اور جان ہاپکنز کے نجی کمروں میں مسیحاوں کے پورے وفد کو ان کے زمینی خداؤں کے آگے دست بستہ تو دیکھ ہی لو گے۔ تھر میں بچے بھوک سے مریں یا حیدر آباد میں گیسٹرو سے، موت کا نقشہ وہی نظر آئے گا۔ فرانسیسی منرل واٹر ہو کہ شاہی بھنڈی، دونوں کسی اور کے نصیب میں لکھی نظر آئیں گی۔ کوٹ چھٹہ اور مٹھی سے بیل گاڑی اور ٹریکٹر ٹرالیوں پر منٹوں کا سفر دنوں میں کرتے رستے میں مر جانے والے جاں بہ لب نہ دیکھنا چاہو تو سرخ رنگ کی چار سڑکوں پر چلنے والی عالی شان بسیں دیکھ لو گے۔

پر جو بھی کرنا کچھ لوگوں کو ایدھی کی آنکھوں سے مت دیکھنا۔ وہ جن کے ہاتھوں میں فتووں کے علم ہیں۔ زبان پر حب رسول کے نعرے ہیں اور سر پر ظل اللہ فی الارض کی دستاریں ہیں۔ وہ جنہوں نے کبھی سڑکوں پر بھیک نہیں مانگی۔ جنہوں نے کبھی لاشوں پر کفن نہیں ڈالے۔ جنہوں نے کبھی بے نسب بے نام ننھے فرشتوں کے پنگھوڑے نہیں جھلائے۔ جنہوں نے کبھی خون آلود اسٹریچر نہیں دھوئے۔ جنہوں نے کبھی ملیشیا کا جوڑا نہیں پہنا۔ آج وہ سب کو بتاتے ہیں کہ دعا ایدھی کے لئے نہیں ہو گی۔ ملحد کی مغفرت کیسی اور بخشش کہاں کی۔ ہاں انہیں ایدھی کی آنکھوں سے مت دیکھنا کہ یہ اس قابل نہیں ہیں۔ ہر شے کو جنت کے لالچ اور دوزخ کے خوف کے مول تولنے والے ان تاجروں کو کون بتائے کہ ایدھی جیسوں کو نہ ان کی ترازو کی ضرورت ہے نہ ان کی رائے کی اور نہ ان کی دعا کی۔ نہ اس کی زندگی کو تحسین کی ضرورت تھی اور نہ اس کی موت کو دعا کی۔

پر ان کو ہی نہیں۔ کسی کو بھی مت دیکھو۔ کیا کیا دیکھو گے۔ اور کیا کرو گے دیکھ کر۔ ایدھی کی آنکھیں مل جائیں گی پر ایدھی کا دل کہاں سے لاو گے۔ اس دل کی شریانوں میں بہتا درد کہاں ملے گا۔ وہ دیکھتا تھا اور پھر دنیا بدل ڈالتا تھا کہ آنکھ تو آئینہ تھا۔ پس آئینہ ایک شرر تھا جو اب بجھ گیا ہے۔ عکس بھی وہی ہے۔ منظر بھی وہی ہے پر اب اسے کوئی نہیں کوئی نہیں بدلے گا۔ مت دیکھنا۔ ایدھی کی آنکھوں سے کچھ مت دیکھنا۔ ایدھی کو تکلیف ہو گی۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments