طالبان کامذاکرات روکنے اور امریکی نمائندے کی جنگ کی دھمکی


طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے امریکی نمائندے زلمی خلیل زاد نے افغانستان کے حالیہ دورے میں طالبان کو پیغام دیتے ہوئے کہاکہ امریکا اور افغانستان سمیت دیگراتحادی جنگ جاری رکھنے کے لئے تیار ہیں۔ طالبان کے سابق سفیرملا ضعیف نے اپنے ٹویٹرپر خلیل زاد کے بیان کو ان کی سفارتی ناکامی قرار دیاہے۔

ویسے تو امریکی نمائندہ برائے امن کا جنگ کی زبان میں بات کرنا ناپسندیدہ عمل ہے لیکن شاید انہوں نے طالبان کے ایک حالیہ بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا جس میں طالبان نے کہا ہے کہ اگر امریکا نے مذاکرات میں غیر ملکی افواج کے انخلا پر بات چیت سے انکار کر دیا تو وہ ہر قسم کے امن مذاکرات روک لیں گے۔

طالبان اس پر غصہ ہیں کہ امریکی نمائندے نے ان سے قطر میں جنوری 9 اور 10 کو پہلے سے طے شدہ مذاکرات منسوخ کردیئے اور طالبان کو قطری حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ مذاکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہوگا کیونکہ خلیل زاد قطر نہیں آ رہے اور اس کے جنوری 8 تا 21 پروگرام میں قطر شامل نہیں۔

خلیل زاد کا خیال ہوسکتا ہے کہ قطر کے سیاسی طالبان کی بجائے با اختیار طالبان سے کیوں نہ ملا جائے جو فیصلے کرتے ہیں اور حتی کہ قطر دفتر کے لئے نامزدگیاں بھی وہ طالبان رہنما ہی کرتے ہیں۔

خلیل زاد کا قطر کے دفتر کو نظر انداز کرنا مذاکراتی عمل میں پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ طالبان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے انہیں جنوری 18 کو اسلام آباد میں امریکی نمائندے سے ملنے کی تجویز دی تھی ۔لیکن دو دن تک انتظار کے باوجود طالبان خلیل زاد سے ملاقات کے لئے نہیں آئے۔

 امریکی وفد کو اسی وجہ سے اپنے  دورے میں توسیع کرنا پڑی کیونکہ پاکستان نے انہیں طالبان سے ملاقات کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اتوار کو خلیل زاد کے دورے کا پانچواں دن تھا جو ستمبر میں ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ان کا کسی بھی ملک کا سب سے طویل دورہ تھا۔

قطر میں طالبان کے ساتھ طے شدہ ملاقات کی منسوخی کے بعد ان کا انحصار زیادہ پاکستان پر ہے کیونکہ مذاکراتی عمل میں تعطل امریکا میں بھی مایوسی کا سبب بن سکتا ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے لیکن اگر وہ اپنے مشن میں ناکام رہے تو ان کو منصب پر رہنے کا جواز ختم ہوسکتا ہے۔

خلیل زاد کے لئے بہتر آپشن قطر سے شروع کیے گئے مذاکراتی عمل کو وہاں ہی سے اگے بڑھانا چاہیے اور اس کو کسی ملک کو خوش کرنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے جس طرح دسمبر میں قطر سے مذاکرات متحدہ عرب امارات منتقل کر دیے گئے۔

وزیراعظم عمران خان نے امارات میں ہونے والے نشست میں پاکستان کی سہولت کاری کا کہا تھا لیکن طالبان اور امریکی نمایندے کے درمیان وہی ملاقات موجودہ تناوکا سبب بن گیا جس میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔

پاکستان کو بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا کسی ملک کو خوش کرنے کے لئے مذاکراتی عمل کو پٹری سے اترنے میں حصہ بننے سے گریز کرلیں۔ طالبان نے جس بیان میں مذاکرات روکنے کی دھمکی دی ہے اس میں دو مرتبہ کہا گیا کہ مذاکرات کے لئے قطر دفتر ہی سے واحد راستہ ہے اور جس ملک نے بھی مذاکرات میں مدد کرنا ہے ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

طالبان نے امریکی نمایندہ خصوصی کے اس تجویز پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے ابوظہبی کے اجلاس میں طالبان کو کہا گیا کہ ائندہ اجلاس جدہ، سعودی عرب میں ہوگا اور اس میں افغان حکومتی نمایندے بھی ہوں گے۔

جب افغان حکومت نے سعودی عرب میں مذکرات کے سے متعلق اعلان کیا تو طالبان نے فوری طور پر کہا انہوں نے سعودی عرب میں مذاکرات سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ خلیل زاد کے اس طرح یک طرفہ بیانات نے مذاکراتی عمل کو مشکل حالت سے دوچار کردیا ہے۔

طالبان کا نیا شکوہ یہ سامنے ایا ہے کہ خلیل زاد ایجنڈے پر غیر ملکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے اہم موضوع سے ہٹ رہے ہیں جو مسئلہ ان کی ترجیحات میں سب سے اولین ہے۔ طالبان کا دعوی ہے کہ نومبر میں قطر میں ہونے والے طالبان اور امریکی نمائندے زلمی خلیل زاد کے ساتھ اجلاس میں غیرملکی افواج کے انخلا اور مستقبل میں افغانستان سے دوسرے ممالک کوخطرات روکنے کے موضوعات کو ایجنڈے پرلانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

طالبان کا دعوی ہے کہ امریکا ایجنڈے پر مفاہمت سے روگردانی کے علاوہ دیگر ممالک کے ذریعے طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ سے مذاکرات کی میزپر بیٹھ جائے جس سے طالبان انکاری ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور افغان جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ غیر ملکی افواج کے نکلنے کے اعلان اور نظام الاوقات کے بعد ائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).