ساہیوال قتل عام: وردی کے رنگ جدا مگر طاقت ایک ہے


17 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نزدیک خروٹ آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری نے 5 چیچن باشندوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا۔ ابتداء میں حکام کا یہ دعوی تھا کہ ان افراد کے خودکش بمبار ہونے کی اطلاع تھی اس لیے ان پر فائرنگ کی گئی تاہم بعد میں سامنے آنے والی وڈیو میں یہ لوگ نہتے نظر آتے ہیں۔ ویڈیو اب بھی شاید یوٹیوب پہ موجود ہو مگر میرے دماغ پہ نقش ہے کہ مرتے مرتے بھی ایک ہاتھ اٹھا فائرنگ سے منع کر رہا تھا کیونکہ ایک وجود میں دوسرا وجود پل رہا تھا۔ ان افراد میں 2 مرد اور 3 عورتیں تھیں، ایک عورت 7 ماہ کی حاملہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق مقامی پاسبان نے پہلے ان افراد سے مختلف مقامات پر رشوت لی اور بعد میں جب یہ لوگ شکایت کے لیے سرحدی سپاہ کی چوکی کی طرف جانے لگے تو پاسبان نے سپاہ کو اطلاع کی کہ خودکش بمبار ان کی چوکی کی طرف آرہے ہیں۔

8 جون 2011، کراچی میں ایک نوجوان سرفراز شاہ رینجرز اہلکاروں کے آگے گڑگڑاتا رہا کہ اسے نہ مارا جائے۔ رینجرز کی گولیاں اس کے جسم میں پیوست ہوئیں اور اس کے تڑپنے کا نظارہ کرتے اہلکار اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہے۔ ابتداء میں بتایا گیا کہ نوجوان تو ڈکیت تھا مگر پھر ویڈیو وائرل ہونے سے اصل واقعہ کا پتہ چلا۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ نوجوان بے قصور، نہتا ثابت ہوا مگر کسی اہلکار کو سفاکیت سے کیے گئے قتل پر سزائے موت نہیں سنائی گئی۔ عمر قید پانے والوں کی سزا برقرار ہے یا نہیں اس بارے میں بھی متضاد اطلاعات آتی رہتی ہیں۔

13 جنوری 2017، ایک جعلی پولیس مقابلے میں ایک ”بہادر بچے“، ”دبنگ“ اور ”نڈر“ کے القابات سے معروف پولیس افسر راؤ انوار نے حسب عادت ایک نوجوان کو داعش کا کارندہ قرار دے کر مار ڈالا۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ مقتول کو سہراب گوٹھ کے کئی اور نوجوانوں کی طرح اٹھا کر قاری، ملا اور مفتی جیسے کچھ سابقے لاحقے لگا کر قتل کیا گیا ہے۔ راؤ انوار کو مفاہمت کے چیمپین آصف زرداری نے بہادری پہ خراج تحسین پیش کیا۔ محکمے کے افسران بھی اپنے پیٹی بھائی کی مدد کو آئے اور کتنے ہی عرصے تک راؤ انوار تحقیقات کے لئے بھی نہ مل سکے۔ پختون پر امن دھرنے اور ملک گیر احتجاج کے بعد آرمی چیف نقیب کے والد سے ملے اور ان سے اچھی اچھی باتیں کر کے آئے۔

خروٹ آباد واقعے کی تحقیقات ہوئیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر باقر شاہ کو بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔ کون قصور وار تھا، کیوں سب کچھ ہوا یہ سب آج بھی کلاسیفائیڈ ہے۔ ملکی سلامتی کو غش آ جائے گا اور پتھر پہ ٹھوکر مار کر ڈیم بنانے والوں کا مورال گر جائے گا اگر کسی وردی کا قصور نکل آیا۔ ساہیوال واقعہ کے ذمہ دار سی ٹی ڈی اہلکار ہیں۔ اب حکومتی اہلکار اور وزراء آپ کو گرفتار، قرار واقعی سزا، کیفر کردار اور عبرت کا نشان جیسے الفاظ بار بار ادا کرتے دکھائی سنائی دیں گے۔

اِس نے نوٹس لے لیا، اُس نے نوٹس لے لیا کی پٹیاں لال نیلی ہو کر ٹی وی پر چمکیں گی اور قانون سب کے لئے برابر ہے جیسا لالی پاپ ٹویٹ، پریس ریلیز اور ٹالک شوز میں سب طوطے کی طرح دہرائیں گے۔ اب سنیں آگے کیا ہو گا؟ کچھ نہیں۔ ہم بحیثیت قوم ماورائے عدالت قتل کے حامی ہیں کیونکہ ہم سب کو ہی پاکستان کے عدالتی نظام پر بھروسا نہیں۔ مقدمات کی طوالت، تکنیکی پیچیدگیاں اور کمزور قوانین مجرم کو طاقتور اور مظلوم کو درگور کرتے ہیں۔

شاہ رخ جتوئی اور شاہزیب کے خاندان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ راؤ انوار کے حمایتی بھی سب کو پتہ ہیں اور پنجاب پولیس کو انکاؤنٹرز پر شہہ دینے والے کا نام بھی سب جانتے ہیں۔ وردی کے رنگ جدا جدا ہو سکتے ہیں مگر اس کی طاقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔ وردی کوئی بھی ہو سکتی ہے مگر طاقت ایک ہی ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس پڑھنے کی کوشش کیجیئے۔ کیپٹن کے دفاع میں جراتمند کمانڈو کو آنا پڑا اور بلآخر ”مشکوک“ کردار کا داغ لئے متاثرہ خاتون ملک چھوڑ گئی۔

ان معاملات میں حکومت اور وزراء کا کردار اتنا ہی ہوتا ہے جتنا بریانی میں الائچی کا۔ منہ میں آئے بدمزگی سی بدمزگی پھیلاتے ہیں۔ آپ بھی چار دن شور مچا لیں، سوگ منا لیں، بتی جلا لیں مگر ہونا پھر بھی کیا ہے۔ ہیرو پھر سے چوہدری، چیمے اور راؤ ہی قرار پانے ہیں۔ کسی کو یاد بھی نہیں رہنا کون مارا گیا تھا سوائے ان کے جن کا باپ تھا، بیٹا تھا، شوہر تھا، بھائی تھا۔ میڈلز کا فروٹ سلاد سینے پر بنتا ہی رہے گا اور کسی مقتول کے لئے کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ ہم تالیاں بجانے والی قوم ہیں، حوصلہ بڑھانے والی قوم ہیں، دشمن کے بچوں کو پڑھانے والی قوم ہیں، ہمیں سوچ گرانی آنی چاہیے مورال نہیں۔ حوصلے سلامت رہیں، یہ پتر تو ہٹوں سے نکلتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).