ساہیوال میں ایک بار پھر دہشت گرد مارے گئے


جنت سے نقیب اللہ مسعود کا میرے نام خط

بعد از سلام!

وقار سنا ہے تمہیں بھی دکھ ہو رہا خلیل اور اس کی فیملی کے مارے جانے کا، تمہاری تو فیسبک وال بھی ویران ہے کوئی مذمت کوئی اظہار افسوس کوئی گالم گلوچ تاحال پوسٹ نہیں کی باقی تو ساری قوم جاگ گئی ہے پھر تم دل ہی دل میں کیوں گھٹ رہے ہو، کہیں خاموش احتجاج تو نہیں کر رہے۔ یاد رکھنا اب احتجاج نہ بھی کرو تو ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کے آج میرے بعد خلیل بھائی کا کیس بھی اللہ کی عدالت میں درج ہو گیا ہے جس کا فیصلہ تم سب کی آنکھیں کھول دے گا۔

یاد ہے میں بھی دہشت گرد کہہ کر مار دیا گیا تھا اور پھر میں یہاں نہایت اطمینان سے رہ رہا تھا کہ اچانک میری ملاقات خلیل بھائی اور نبیلہ بھابی سے ہوئی پتہ چلا انہیں بھی دہشت گرد کہہ کر مارا گیا ان کے ساتھ ننی بچی اریبہ بھی تھی اور اسے بھی تمہاری دنیا میں دہشت گرد کہا جا رہا تھا۔ اریبہ اپنی ماں کے ساتھ لگ کر جنت میں بھی رو رہی تھی کہ عمیر اور چھوٹی دونوں بہنوں کا خیال کون رکھے گا، انہیں سکول کون لے کے جائے گا، کھانا کون کھلائے گا اور تخفظ کون دے گا۔

یقین جانو میں اپنے قتل سے زیادہ خلیل بھائی اور ان کی فیملی کے یوں یہاں آنے پر آفسردہ ہوا ہوں کیوں کہ جنت میں ہر آسائش ہے سکون ہی سکون ہے مگر ابدی دنیا میں میرا قاتل راؤ انوار آج بھی آزاد ہے اور سیکڑوں انسانی جانیں لینے کے بعد عدالتوں میں اس کا احترام دیکھ کر ہی خلیل بھائی کی فیملی پر قیامت گزرے گی، کیا اگر راؤ انوار کو پھانسی پر لٹکایا جاتا تو باوردی دہشت گرد تین معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں، بابا معصوم بہن اور چچا کو سیدھی گولیاں مانے کی جسارت کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتے۔ مگر تم اطیمنان رکھو ہمارا کیس بہت مضبوط ہے اور فیصلہ خدا کی عدالت سنائے گی۔

وقار یاد ہے تمہیں میرے قتل ہونے کے بعد بھی مجھ پر طرح طرح کے الزمات لگائے گئے تھے مگر خلق خدا کے شور شرابے میں منافق اداروں نے میرے قاتل راوانوار کو گرفتار کرنے کا ڈرامہ رچایا شاید تم لوگ اس ڈرامے کی حقیقت سے واقفیت نہ رکھتے ہو مگر یہاں سے مجھے سب کچھ دِکھ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کے پہلے کیسے میرے قاتل کو پناہ دے کر تم لوگوں سے چھپایا گیا اور پھر پانی سر سے اونچا ہوتا دیکھ کر کیسے اسے ڈرامائی یا فلمی انداز میں عدالتوں میں پیش کیا گیا۔

اور میں نے وہ پروفیسر بھی دیکھا جو 40 سالہ تعلیمی خدامات کے بدلے ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا ہمارا پاس پہنچا دیا گیا۔ اور اس پر بھی الزامات عائد کیے گے۔ آج خلیل بھائی اور نبیلہ بھابی پر بھی نا اہل ادارے کی طرف سے بار بار بدل کر مشکوک بیانات دیے جا رہے ہیں مگر تم سب کو بتا دینا 70 ہزار بے گناہوں کے ہاتھ ان تمام کے گریبانوں تک پہنچنے کو تیار ہیں جو ہمیں بے گناہ مار کر خود میڈل وصول کرتے رہے۔

اور ہاں سب کو بتا دینا خلیل بھائی کے بچے ابھی چھوٹے ہیں، بچیوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ ماں بابا واپس نہیں آئیں گے وہ بس ڈری اور سہمی ہوئی ہیں انہیں دلاسہ دینا۔ کوشش کرنا عمیر کے اندر کی آگ ٹھنڈی ہو جائے جو ناممکن محسوس ہوتی ہے کیوں کے اگر اس نے بڑے ہو کر بندوق کے ذریعے اپنا انتقام لینا شروع کیا تو شاید تم لوگوں کو اپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کرنے کا موقع بھی نہ دے۔ مجھے تو تم لوگ انصاف نہیں دلا سکے خلیل بھائی کے بچوں کو انصاف دلانے کی کوشش کرنا۔ اللہ تمہارا مخافظ رہے، تمہیں اپنے پاس نہ بلانے کا متمنی نقیب اللہ مسعود!

جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹتی ہو
‏ایسی تلوار، مع صاحب تلوار پہ تھُو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).