شوہر کی محبت میں بیوی کی بے وفائی


میں پہلی بار رینا سے ائیر پورٹ پر ملا تھا۔ بزنس کے سلسلے میں مجھے دبئی جانا تھا وہاں ایک اہم میٹنگ تھی جس میں مختلف کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کرنی تھی۔ باس نے مجھے بتایا تھا کہ ہماری پارٹنر کمپنی سے جواد نامی شخص میرے ہمراہ ہو گا۔ چناں چہ کراچی ائیر پورٹ پر میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر وہ ایک قیمتی کار میں آیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی تو پچھلی نشستوں سے دو افراد باہر نکلے۔

آگے جواد تھا جس کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ دراز قد اور وجیہہ شخص تھا۔ وہ باوقار انداز میں چل رہا تھا۔ اس کے پیچھے انتہائی متناسب جسم کی نہایت دلکش عورت تھی۔ عمر چونتیس پینتیس برس رہی ہو گی۔ اس کے بدن کی تراش ایسی تھی کہ بقول فراز پھول بھی اسے اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہوں گے۔ آپ غالباً حماد صاحب ہیں۔ آئی ایم جواد اینڈ مائی بیوٹی فل وائف رینا۔

جواد نے مجھے پہچان لیا تھا۔ چند رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس دوران میں رینا کی نگاہوں کی تپش کو محسوس کیے بنا نہ رہ سکا۔ میں نے چوری چوری اس کا جائزہ لیا۔ اس کی آنکھیں اپنے شوہر کی محبت سے لبریز دکھائی دیتی تھیں۔ جب ہم گفتگو کر رہے تھے اس وقت وہ بڑی بے تکلفی سے جواد کے بازو میں بازو ڈالے کھڑی تھی۔ فلائیٹ کچھ لیٹ تھی ہم کافی پینے لگے اس دوران بھی رینا جواد سے چپک کر بیٹھی تھی اور کئی بارباتوں کے دوران جواد کے کندھے پر جھک جاتی تھی۔

میں ایک طرف تو ان کی پر جوش محبت کے انداز دیکھ کر حیران تھا اور دوسری طرف رینا کبھی کبھی جن نظروں سے مجھے دیکھتی تھی میں ان نظروں پر عجیب الجھن میں پڑ جاتا تھا۔ بہر حال فلائیٹ کا وقت ہوا تو رینا نے ہمیں الوداع کہا۔ جلدی سے جواد کے گلے لگی اور اداس سی ہو گئی۔ اس کے بعد کئی ہفتوں تک میرا رابطہ رینا سے نہ ہوا۔ جواد سے البتہ ایک تعلق بن چکا تھا۔ ٹیلی فون پر بات چیت ہوتی تھی جو زیادہ تر کاروباری نوعیت کی ہوتی تھی۔ پھر ایک دن جواد نے مجھے ایک پارٹی میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ پارٹی اس کی کوٹھی میں ہی تھی۔ میرے پاس عدم شرکت کے لئے کوئی عذر میسر نہ تھا چناں چہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گیا۔

اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ جواد بہت دولت مند آدمی ہے۔ اس کی کوٹھی اس علاقے کی کوٹھیوں میں ممتاز دکھائی دیتی تھی اور معززین شہر کی چمکتی ہوئی قیمتی گاڑیاں بتا رہی تھیں کہ جواد کے ملنے جلنے والے بھی عام لوگ نہیں ہیں۔ شاید میری گاڑی ہی سب سے پرانے ماڈل کی تھی۔ میں گاڑی سے اتر کر آگے بڑھا تو دیکھا کہ پارٹی کا اہتمام سوئمنگ پول کے کنارے کیا گیا ہے۔ برقی قمقموں سے ساری کوٹھی جگمگا رہی تھی۔ پارٹی والی جگہ پررنگ و نور کی محفل تھی۔ ہنستے مسکراتے مرد و زن خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بیشتر خواتین جدید تراش کے دیدہ زیب لباس پہنے ہوئے تھیں۔ باوردی ویٹر آ جا رہے تھے اور مہمانوں کو ڈرنکس وغیرہ پیش کر رہے تھے۔ جواد اپنی بیوی کے ساتھ مہمانوں کے استقبال کے لئے موجود تھا۔

میں نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور رینا کو ہیلو کہا۔ رینا کے سنہری لباس میں چاندی جیسا بدن ضو دیتا تھا۔ فضا میں ہلکی سی ٹھنڈک تھی مگر اس کے بغیر آستینوں کے فراخ گلے والے لباس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اسے اس ٹھنڈک کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

” مبارک ہو آپ نے بزنس میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔ “ میں نے جواد سے کہا۔ یہ تو ایک بہانہ ہے۔ میں نے محض دوستوں سے ملنے کے لئے یہ محفل سجائی ہے۔ جواد بولا اور رینا دلکش انداز میں مسکرانے لگی۔ ”آپ اپنی بیگم کو ساتھ نہیں لائے؟ “ رینا نے سوال کیا۔ ”ہوتی تو ضرور لاتا۔ خوش قسمتی سے ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ “ میں نے جواب دیا۔ رینا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

” آپ کسی کو خود سے محروم کر کے اچھا نہیں کر رہے۔ آپ کو شادی کر لینی چاہیے۔ “ اس نے بھرپور نظروں سے میرا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ میں نے بھی مسکرا کر جواب گول کر دیا۔ ”آپ انجوائے کریں۔ ہیو اے گڈ ٹائم۔ “ جواد نے کہا۔ چند اور مہمان آ گئے تھے میں آگے بڑھ گیا۔

کوئی بینڈ بڑی دلکش دھنیں بجا رہا تھا۔ گلوکار بھی بڑا سریلا تھا۔ اس نے ایک مدھر گیت شروع کیا تو سب کی توجہ اس طرف ہو گئی۔ میں ایپل جوس کے سپ لیتے ہوئے گانا سن رہا تھا۔ اس محفل میں موجود اکثریت اجنبیوں کی تھی۔ میں کسی حد تک بوریت بھی محسوس کر رہا تھا لیکن محفل چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ کھانے کا دور چلا۔ اس کے بعد پھر موسیقی کی محفل جم گئی۔ ایک سریلی گلوکارہ غزلیں سنا رہی تھی۔ لوگ اپنی اپنی پسند کے مشروبات سے دل بہلاتے ہوئے موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

بارہ بج گئے مگر محفل جاری تھی۔ چند مہمان رخصت کی اجازت لے کر جا چکے تھے۔ میں بھی اب جانا چاہتا تھا۔ میں نے جواد کو تلاش کرنا چاہا۔ وہ سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھا پی رہا تھا۔ ایسے میں رینا میرے قریب آئی۔ ”خاموشی سے میرے پیچھے آؤ“ اس نے سرگوشی کی اور آگے بڑھ گئی۔ میں مشینی انداز میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ وہ کوٹھی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ نہ جانے اس کے لہجے میں ایسی کیا بات تھی کہ میں سوچے سمجھے بغیر اس کی پیروی کر رہا تھا۔

کوری ڈور سے گزر کر وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اند ر داخل ہوا۔ اس نے مڑ کر دروازہ بند کیا اور مخمور لہجے میں بولی۔ ”آؤ بیٹھو ناں، تم تھک تو نہیں گئے؟ “

نہیں میں ٹھیک ہوں۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ یہ ایک پر تعیش بیڈ روم تھا۔ جس کی ہر چیز اپنی مثال آپ تھی۔ جہازی سائز ڈبل بیڈ کو دیکھ کر ہی راحت اور آرام کا احساس ہوتا تھا۔ فرش پر دبیز قالین انتہائی قیمتی دکھائی دیتا تھا۔ صوفہ جیسے روئی کے گالوں سے بنا تھا۔ ایک طرف الماری میں اردو اور انگریزی ادب کی کتابیں رکھی تھیں۔ میں آرام دہ صوفے پر ٹک گیا۔ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے مجھے کیوں بلایا ہے۔

وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ کر مجھے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ ”کچھ پیو گے؟ چند لمحے کی خاموشی کے بعد خود ہی بولی۔ “ میں بھی کتنی پاگل ہوں، اس میں پوچھنے کی کیا ضرورت ہے َ؟ ”یہ کہہ کر وہ اٹھی اور ایک طرف موجود فرج کھول کر ایک بوتل نکالی۔ پھر شیشے کے پتلے پتلے نہایت خوبصرت گلاسوں میں مشروب انڈیلا اور ایک گلاس میری طرف بڑھا دیا۔ “ نو تھینکس، میں یہ نہیں پیتا۔ ”میں نے مضطرب ہو کر کہا۔

” چھوڑو یار کیوں اتنے فارمل ہو رہے ہو۔ یہ ریڈ وائن ہے اور تم انکار کر رہے ہو۔ “ اس نے دوستانہ انداز اپناتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لئے جام لے لیا۔ سوچا کہ دیکھتا ہوں اس کے دل میں کیا ہے۔ محض گلاس تھامنے میں تو کوئی حرج نہیں۔

” اس دن ائیر پورٹ پر تم اچھے لگ رہے تھے مگر آج تو بہت زیادہ اچھے لگ رہے ہو۔ “ اس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”اور تم اس دن غضب کی حسین لگ رہی تھیں مگر آج تو قیامت ڈھا رہی ہو۔ “ میں نے فوراً کہا۔ ”واقعی؟ “ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ”جی نہیں، مذاق کر رہا ہوں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں آخر آپ مجھ سے چاہتی کیا ہیں؟

کتنے سادہ ہو تم یا شاید جواد کی وجہ سے جھجھک رہے ہو۔ بے فکر ہو جاؤ میرا شوہر تین چار بجے تک شراب پیتا رہے گا اور غزلیں سنتا رہے گا۔ پھر اپنے بیڈ روم میں جا کر سو جائے گا۔ وہ مسکرا کر بولی۔ اس دوران اس نے بڑی ادا سے اپنے گھنے اور چمکیلے بالوں کو شانے سے ہٹا کر پیچھے کیا۔ میں جو اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا نشیب و فراز میں الجھ کر رہ گیا۔ لیکن تم نے مجھے کیوں بلایا۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر موزوں الفاظ ڈھونڈ رہا تھا۔

اس نے ایک دو لمحے سوچتے ہوئے ہونٹوں کو یوں گول کیا جیسے کسی کو چومتے ہوئے بنتے ہیں پھر مسکراتے ہوئے بولی۔ ”تم تو ڈر رہے ہو۔ فکر مت کرو میں تمہیں کھا نہیں جاؤں گی۔ تم کوئی گلاب جامن یا برفی ورفی تو ہو نہیں۔ پھر ڈر کس بات کا ہے؟ “

” میں ڈر نہیں رہا لیکن اگر تمہارا شوہر آ گیا تو کیا ہو گا۔ شاید ہمارا اتنا فرینڈلی ہونا اسے اچھا نہیں لگے گا۔ “ میرا لہجہ تھوڑا طنزیہ تھا۔

میں نے کہا ناں، میں اپنے شوہر کو جانتی ہوں۔ اس کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ اس وقت میرے پاس آئے لہٰذا تم یہ شرم چھوڑو اور میرے پاس آ کر بیٹھو۔ رینا نے بے تکلفی سے کہا۔ مجھے اپنی جگہہ پر جمے دیکھ کر وہ جیسے جھنجھلا کر اٹھی اور میرے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔ ”یار تم بہت عجیب آدمی ہو۔ “ اس کے بدن کی حرارت مجھے پگھلا رہی تھی۔ جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی تھی۔

یہ میرا ذاتی بیڈ روم ہے۔ اس میں کوئی میری اجازت کے بغیر نہیں آ سکتا۔ جواد بھی نہیں۔ میں جب بھی تنہا اور اداس ہوتی ہوں تو یہاں آتی ہوں۔ اپنی پسند کا میوزک سنتی ہوں۔ ڈانس کرتی ہوں۔ فلمیں دیکھتی ہوں۔ اس نے بولتے بولتے میرے کندھے پر سر رکھ دیا۔

نہیں یہ بے وفائی ہے۔ میں یک دم پیچھے ہٹا۔ ”تم مجھے حاصل نہیں کرنا چاہتے؟ “ رینا طنزیہ انداز میں ہنسی۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے سرگوشی کی۔ ”غور سے سنو میرے دل کی دھڑکن کیا کہہ رہی ہے۔ میرا دل کس آگ میں جل رہا ہے۔ تمہیں کوئی اندازہ ہے کہ کوئی کتنی شدت سے کسی کا منتظر ہے جو اس انگاروں سے جلتے بدن کو چھو کر اس میں ٹھنڈک بھر دے۔ “ مجھے ایسا لگا جیسے میں اس سے جیت نہیں سکتا وہ ایک ساحرہ کی طرح مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر چکی تھی۔ ”لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے، مجھے لگتا تھا تم اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی ہو۔ تم اس سے بے وفائی کیسے کر سکتی ہو؟ “

”ہاں ہاں میں بے وفا ہوں مگر اس لئے کہ میں اپنے شوہر سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتی ہوں۔ میں اپنے شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ “ اس نے اس بار تیز لہجے میں کہا۔

میں نے انتہائی حیرانی سے اسے دیکھا۔

” تم پاگل ہویا تمہارا دماغ خراب ہے۔ شوہر سے اتنی محبت ہے تو پھر بے وفائی کیوں۔ “ میں نے الجھ کر کہا۔

” میرا نہیں تمہارا دماغ خراب ہے۔ تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے۔ میں نہیں چاہتی کہ میری شادی ٹوٹ جائے۔ ذرا میری طرف دیکھو، کیا میں خوبصورت نہیں، کیا مجھ میں سیکس اپیل نہیں۔ لیکن شاید میرے شوہر کو ضرب جمع تقسیم میں مجھ سے زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنے شوہر کو چھوڑنا نہیں چاہتی اسی لئے مردوں سے تعلق بناتی ہوں۔ تم میری زندگی میں آنے والے پہلے نہیں اکیسویں مرد ہو۔

وہ جذبات کی شدت سے کپکپا رہی تھی۔ اگرچہ وہ اپنی بے وفائی کا اعتراف کر رہی تھی لیکن نہ جانے کیوں مجھے بہت معصوم لگ رہی تھی۔

” اچھا تمہاری زندگی میں آنے والے مرد کس طرح کے ہوتے ہیں؟ “ میں نے عجیب سے انداز میں پوچھا۔

” زیادہ تر ایسے ہیں جن سے اب تعلق نہیں ہے لیکن اکثر ان میں شائستہ اور نفیس ہیں۔ چند ایسے ہیں جن سے کبھی کبھی ملتی ہوں۔ اپنے بھڑکے ہوئے جذبات کی تسکین بھی کرتی ہوں۔ یقین کرو جب بھی ایسا ہوتا ہے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں خود کو زندہ محسوس کرتی ہوں۔ مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں اور نہ ہی اس سے میری شادی شدہ زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ میرے خیال میں وہ اور بھی مضبوط ہو چکی ہے کیونکہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو کب کا اپنے شوہر سے الگ ہو چکی ہوتی لیکن میں ایسا نہیں چاہتی۔ وہ نہ جانے کس رو میں بہک کر کہتی چلی گئی۔

میں آنکھیں پھاڑے اس کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔ جو اپنی شادی برقرار رکھنے کے لئے غیر مردوں سے تعلق استوار کرنا چاہتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).