ناصر اور اس کی بستی


جانے کتنے سالوں بعد کچے آنگن میں قدم دھرا۔ سرخ شینیل سے سجے اور بڑی شان سے بچھے نواڑ کے پلنگ دیکھتے ہی طبیعت آرام کے لیے للچا گئی، صحن کے بیچوں بیچ لہلہاتے اِملی کے پیڑ کی گھنی ٹہنیوں کو جو سر اٹھا کر دیکھا تو وہ سکون ملا جس سے میں ایک عرصے سے محروم تھی۔ اس بے سکونی کو رفع کرنے کے لیے وقت کے مرہم کا ہزارہا لیپ کیا، لیکن ظالم وقت کی بیمار کروٹوں تلے دب کر زندگی اور شکن آلود ہوگئی۔ پھر خود کو یہ سوچ کر تسلی دے ڈالی کہ جب سینے میں ہی دلِِ بے قرار نصب ہو، تو اس کو بہلانے کی ساری کوششیں رائیگاں ہونے کے سوا اور کریں بھی کیا؟

پھر ایک خوش گوار صبح، ہوا کے ٹھنڈے جھونکے مجھے اڑا کر مسلم گوٹھ لے پہنچے۔ کچھ دن قبل جب ناصر نے مجھے اپنے گھر چلنے کی دعوت دی، تو میں نے مسکرا کے سر ہلا دیا تھا۔ ناصر کا دل جو رکھنا تھا۔ آپ لوگ اب پوچھیں گے کہ ناصر کون ہے؟ ناصر میرے بہت سارے مسئلوں میں سے اکثر کا حل ہے۔

ایک گرم دوپہر گلشنِ معمار کی چوڑی اور تپتی سڑک پر ناصر سے میرا پہلا تعارف ایک رکشے والے کے طور پر ہوا۔ اس کے بعد وہ اکثر مجھے بچوں کے ساتھ سڑک پر سواری کے انتظار میں کھڑا دیکھ کر رکشہ روک دیتا۔ رفتہ رفتہ وہ میرے لیے خضرِ راہ بن گیا۔ ایک ایسے دور میں جب میں اپنے سائے سے بھی ڈرتی تھی کہ کہیں یہ بھی ڈنک نہ مار دے، ایسے میں ناصر پر ہونے والا اعتماد خدا کی دین تھا اور رفتہ رفتہ ناصر ہماری زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔

ماں کی یاد ستائے اور ”کریم“ دست یاب نہ ہو، اسکول کی وین نکل جائے اور گھڑی کی سوئیاں، بچوں کی برداشت کی طرح ساتھ چھوڑ رہی ہوں، مہینے کا راشن لانا ہو اور لاکر تین منزل چڑھانا بھی ہو، عید تہوار، شادی بیاہ کی تیاریاں نبیڑنے گھنٹوں بازاروں میں گھومنا ہو یا رات گئے بیمار بچے کو گود میں لٹکائے کوئی مسیحا تلاش کرنا ہو، ایسے میں میری انگلیاں موبائل پر تیزی سے ایک ہی نام تلاش کرتی ہیں اور وہ ہے ناصر۔ صرف یہی نہیں بلکہ واشنگ مشین مقررہ مدت سے زیادہ گھسیٹے جانے پر ناراض ہوکر چپ کی چادر تان لے، سٹیبلائزر، فریج کے کاندھے پر بوجھ بنا رہنے سے منکر ہوجائے، چھت کا پنکھا سخت گرمی میں ٹھنڈا پڑجائے، باورچی خانے کے نلکے میں پانی سکڑ جائے، غرض کوئی بھی معاملہ سنورتے سنورتے بگڑ جائے، میرے پاس سب مسئلوں کا ایک ہی حل ہے، اور وہ ہے ناصر۔

ناصر عاجزی و انکساری کا پیکر اور اسمِ بامسمیٰ ہے، دھَن کا غریب مگر من کا بے حد اور بے حساب امیر ہے۔ اس کو میں نے اپنی حیثیت کے مطابق جب جو دیا، اس نے رکھ لیا، مزید کچھ نہ طلب کیا، ہاں ایک وعدہ ضرور لیا کہ جس دن میرے ہاتھ میں گاڑی کی چابی آئے گی، ڈرائیونگ بھی وہی سکھائے گا اور سب سے پہلے اپنے گھر لے کر جائے گا۔ سو یہ خواہش پوری ہوئی۔ میرا ٹرینر اور ڈرائیور بننے کے بعد سب سے پہلے اس نے مجھے یہی وعدہ یاد دلایا اور ایک صبح، گہرے گڑھوں سے بچتی اور چھوٹے گڑھوں میں دھنستی گاڑی مسلم گوٹھ کی حدود میں داخل ہوگئی۔

پتا ہوتا کہ جلے دل اور شکستہ اعصاب کی تشفی کرنے کے لیے تلوے اس نرم اور گیلی مٹی سے مَس ہونے کے منتظر ہیں، تو یہ علاج میں کب کا کرچکی ہوتی۔ شہر کا بے ہنگم شور اور باسیوں کی بے گانگی ایک سلوپوائزن سے زیادہ اور کیا ہے۔ میں بھی سب کی طرح اس زہر کو قطرہ قطرہ پی رہی ہوں، جینے سے انکار کرکر کے بھی جی رہی ہوں، لیکن اصل جینا کیا ہوتا ہے، مطمئن زندگی کے بنیادی عناصر کون سے ہیں، خوشی کے جام پینے کا نسخہ کیمیا کون سا ہے؟ سکون آخر کن اجزائے ترکیبی کا مرکب اور مخفف ہے؟ یہ سارے راز مجھ پر، اس کچی بستی میں پاؤں دھر کر کھلے۔ یہاں کسی کو کسی سے خطرہ نہیں، اور سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ کسی کے پاس ضرورت سے اتنا زیادہ ہے بھی نہیں جس کی حفاظت کا ڈر انہیں سُکھ کی نیند سے محروم کردے۔

ناصر کی گھر والی نے اپنی کم عمری کے باوجود سگھڑاپے سے اس کچے مکان کو گھروندا بنا رکھا تھا۔ ایک کمرے اور صحن کے اس گھر میں سجانے کو کوئی مناسب سامان نہ تھا پھر بھی یہاں بسنے والوں کی آنکھوں میں وہ اطمینان تھا جو اکثر قیمتی گدوں اور نرم صوفوں میں دھنسے چہروں کی رونق بڑھانے میں ناکام رہتا ہے۔ گلابی کِریم والے بسکٹس کے ساتھ مرنڈا پینے کا میرا پہلا اتفاق تھا، یقین جانیے یہ امتزاج ایسا برا بھی نہیں اگر آپ کے ساتھ بیٹھے لوگوں کا خلوص اور محبت اس میں شامل ہو۔

رختِ سفر باندھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس کی بیوی نے ذرا اور بٹھانے کے شوق میں اخروٹ کی گری سے بھری پیالی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور پھر چلتے چلتے دیسی انڈے تحفے کے طور پر تھما دیے۔ انتہائی سادہ لوگوں کے درمیان گزرا یہ ایک گھنٹہ مجھے دو دہائی پیچھے لے گیا۔ جب لوگ فطرت سے قریب اور غموں سے دور تھے۔ صحن کچے اور رشتے ناتے پکے ہوتے تھے۔ سب ساتھ ہنستے اور روتے تھے۔ وقت کا برا ہو ہر چیز کا ہی نقشہ بدل ڈالا۔ دلوں کو وہ سکون اب کہاں نصیب جس میں پلکوں کی آہٹ بھی محسوس کی جاسکے۔ زندگی فقط شور سے عبارت ہے۔ اندھی خواہشوں کا شور خوشیوں بھری زندگی کو آلودہ کر چکا ہے۔ ایسے میں ناصر کی بستی اور اس کے گھر کا سکون ذرا دیر کو ہی سہی لیکن کھوئی ہوئی راحت بحال کرگیا۔

خود ناصر جتنا مصروف سڑک پر ہوتا ہے اتنا ہی گھر پر بھی۔ ایک بچہ اترتا ہے تو دوسرا فرمائشیں لے کر چڑھ جاتا ہے۔ مزے کی بات کہ ان میں سے ناصر کا اپنا کوئی بچہ نہیں۔ محلے کے بچوں کو اپنی گود میں کھلاتے ناصر اور اس کی بیوی اپنی بے اولادی کے احساس سے قطعاً بے نیاز اور بہت خوش ہیں۔ محلے کی لڑکیاں اور عورتیں ناصر کی غیرموجودگی میں اس کے گھر اور گھر والی کے من کا آنگن سوُنا نہیں ہونے دیتیں۔ یہاں کے لوگ زندگی جیتے ہیں، ایک ہم ہیں جوترقی کی سڑکوں پر شہر کے راستے پھلانگنے کے باوجود خون کے آنسو پیتے ہیں۔ جانے کیسے لوگ ہیں ہم جو آگے بڑھنے کی ہوس میں مبتلا بھی ہیں اور جب وقت آگے بڑھ جاتا ہے تو پیچھے دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).