اوریا اور قرۃالعین، عورتیں مرغیاں کیوں ہیں؟


\"saleemقرۃالعین فاطمہ صاحبہ، ہمارے لوگ یعنی مرد عوتوں کو مرغیاں کیوں سمجھتے ہیں۔ اس بات کا تعلق مردوں کی تربیت سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق عورت کو برابری کا انسان نہ سمجھنے سے ہے۔ یہ مرد لوگ ساری عورتوں کو مرغیاں نہیں سمجھتے۔ اپنی گھر کی عورتوں سے تو بڑی عزت سے پیش آتے ہیں۔ عورت ایک خاص رول کے اندر تو با عزت ہے اور اس رول سے باہر، جیسا کہ آپ اس دن اس رول سے نکلیں اور ٹی وی ریکارڈنگ کے لئے پہنچیں تو آپ مرغیاں تھیں جن پر ہاتھ صاف کیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ عورتیں (available) میسر ہیں اور \”قربان\” ہو کر خوش بھی ہوتی ہیں۔

ہم عورت کو برابری کے انسان کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ آپ نے بھی اپنے آرٹیکل میں عورت کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ آپ کے آرٹیکل میں مذکور سارے سوالوں کے جواب کے لئے تو شاید ایک کتاب درکار ہے لیکن کچھ بہت ہی نمایاں نکات کا ذکر میں یہاں کروں گا۔

روایات کی پاسداری بہت پر کشش ہے۔ اکثر لوگوں کو بہت بھاتی ہے خاص طور عورتوں اور بچیوں کو ایک خول کے اندر رکھنے والوں کو۔ جہاں مذہب کا ڈنڈا نہ چلے اور باقاعدہ قرآن، سنت یا حدیث کا ناقابل تردید حوالہ سامنے آ جائے تو پھر روایات کا سہارا لیتے ہیں۔ زبردستی کی شادی یا مرضی کی شادی۔ اسلام کے احکام واضح ہیں تو مشرقی روایات کا سہارا لیتے ہیں۔ مغرب زدہ کا الزام لگا کر گالیاں شروع اور مکالمہ ٹھپ۔

اوریا صاحب اور کمپنی یہ پراپگنڈہ کرتے ہیں کہ مرضی کی شادی سے مراد لڑکی کا گھر سے بھاگ جانا ہے اور یہ کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے چاہتے ہیں کہ ساری لڑکیاں فوراً گھروں سے بھاگ جائیں۔ لہٰذا جونہی کسی کے منہ سے یہ بات نکلی کہ عورت کو اپنی شادی سے متعلقہ فیصلوں کا حق ہونا چاہیئے تو آگے سے سوال آتا ہے \”پوچھو ان مغرب زدہ عورتوں کو کہ جو لڑکیاں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا اور ان کا ٹھکانا کہاں ہوتا ہے\”۔ او بھئ کون کہہ رہا ہے کہ لڑکیاں گھر سے بھاگ جائیں۔ یہ لوگ عورتوں کے انسانی حقوق کی بات کو وینا ملک کے فوٹو سے الجھا دیتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے شادی کسی بھی شخص، مرد یا عورت، کے لئے ایک بہت ہی ذاتی اور اہم فیصلہ ہوتا۔ زندگی کے اتنے اہم فیصلے میں آپ کو اپنے والدین، بہن بھائی اور دوستوں اور خیرخواہوں کی رائے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں مردوں کو یہ سہولت بھرپور طور پر میسر ہے۔ لڑکے کی شادی کے فیصلے کے وقت بھی تھوڑے بہت اختلاف ہوتے ہیں اور باپ کی پگ مٹی میں نہیں رلتی اور فیصلہ مل جل کر کیا جاتا ہے۔ مگر لڑکیاں اس سہولت سے اکثر محروم ہیں۔ ادھر لڑکی اور باپ کی رائے میں ذرا سا اختلاف سامنے آیا اور ادھر پگ مٹی میں رل گئی۔

گھروں میں کرئیر کے انتخاب، شادی اور بہت سارے دوسرے اہم معاملات میں تکرار باپ بیٹے میں بھی ہوتی ہے اور کبھی باپ کی مانی جاتی کبھی بیٹے کی یا کوئی درمیانی راہ نکالی جاتی ہے مگر اتنا طوفان نہیں آتا جتنا لڑکی کے معاملے میں آتا ہے۔ اگر لڑکی کو بھی اپنی زندگی کے متعلق فیصلوں میں شمولیت کا ایسے ہی حق حاصل ہو جیسے لڑکے (انسان) کو ہوتا ہے تو پھر بحث مباحثہ باپ کی بے عزتی کا باعث نہین ہو گا اور اہم فیصلے مل جل کر ہی کیے جائیں گے۔ اسلام تو اس سے منع نہیں کرتا ہاں البتہ ہماری مشرقی روایات اجازت نہیں دیتیں۔

ایک اور نکتہ آپ نے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ والے کلچر سے متعلق اٹھایا ہے۔ عرض ہے کہ قطعہ نظر اس بات کے یہ کلچر صحیع ہے یا غلط، یہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا کلچر ہر جگہ ہے اور ہمیشہ سے ہے۔ کوئی بھی ملک یا معاشرہ، ہمارے سمیت، اس سے خالی نہیں ہے۔ فرق صرف حقیقت کو تسلیم کرنے یا نظریں چرانے کا ہے۔ حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا زیادہ نقصان لڑکیوں اور عورتوں کو ہی ہوتا ہے۔ جن معاشروں نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے وہاں اپنی بیٹیوں کو بڑے عذابوں سے بچانا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔

اور یہ جو لڑکوں کا والدین سے چوری فلم دیکھنا آپ کو \”کول\” لگتا ہے اور کلچر کی یہ تبدیلی کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ فلم دیکھیں مناسب نہیں لگتا تو یہ بھی ایک بڑا دھوکہ ہے۔ ہماری روایات کہ گھر کے مرد اور عورتیں آپس میں بیٹھ کر جنس جیسے اہم موضوع اور اس سے متعلقہ مسائل پر بات نہیں کر سکتے ہمارے بچوں، خاص طور پر لڑکیوں، کے لئے بہت نقصان دہ ہیں۔ اگر گھر میں ایسی گفتگو کا رواج ہو تو جنسی ہراسانی کی لعنت بہت کم ہو جائے۔ اب بہنیں اپنے بھائیوں کو بتا نہیں سکتیں کہ جنسی ہراسانی کتنی بری شے ہے۔ اور اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ لڑکیوں کے لباس کی وجہ سے مرد تاڑنے پر مجبور ہیں تو لاہور اور لندن کے لباس اور سڑکوں پر مردوں کے روئیے کا موازنہ کر لیں۔ کیا وہاں مردوں اور عورتوں کے جسموں میں قدرتی کشش نہیں رکھی گئی۔

لباس کے بارے میں آپ کی بات ایک حد تک ٹھیک ہے۔ اپنے لباس کی چوائس ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ سٹیٹ یا کسی شخص کو دخل اندازی کا حق نہیں ہونا چاہیئے۔ لباس کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق بھی غلط ہے۔ میں ایک مغالطے کی بات ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ لباس عملاً عورتوں کے لئے تکلیف دہ ہیں اور ان کی ذاتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ برقع ان میں سے ایک ہے۔ اگر مرد برقع پہنے تو اس کی زندگی اس سے بالکل مختلف ہو جیسی اب ہے۔ اسی طرح عورت بھی برقع کی وجہ سے بھرپور زندگی نہیں گزار سکتی۔ اتنی گرمی میں برقع تکلیف اور کوفت کا باعث ہے۔ انسان اپنی آسانی کے لئے موسم کے مطابق لباس تبدیل کرتا ہے۔ اور برقع پہننے والی عورتوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ شدید گرمی میں برقع پوش عورت پسینے کا عذاب جھیلتی ہے تاکہ روایات خراب نہ ہوں جب کہ مرد کے ٹی شرٹ یا ٹائی پہننے سے کوئی عذاب نہیں ٹوٹتا۔ خاص لباس کی پابندیاں عورتوں کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہیں۔ اور پھر انسانوں کو انسانوں سے منہ چھپانے کی ضرورت ہی کیوں ہے۔

اوریا مقبول اور ان کے نظریات رکھنے والے لوگوں کا یہی المیہ ہے وہ عورت کو انسانیت کے درجے پر آنے سے روکتے ہیں۔ جہاں مذہب کا ہتھیار کام نہ ائے وہاں روایات سے کام چلاتے ہیں۔ لیکن عورت کا ایک برابری کا انسان ہونا ان سے برداشت نہیں ہوتا کیونکہ انہیں اپنی روایات پیاری ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ ساری روایات بری ہیں اور نہ ساری اچھی۔ کچھ ایسی ہیں جو انسانوں کے کمزور طبقوں کے لئے نقصان دہ ہیں ان پر سوال اٹھتے رہیں گے۔

یہ ساری باتیں اس لئے ہو رہی ہیں کہ لڑکی یا عورت ہمارے معاشرے میں برابری کی انسان نہیں بلکہ صرف ماں بہن، بیٹی اور بیوی ہے۔ اس لئے اگر اس رول سے نکلتی ہوئی لگتی ہے تو ہم اس کے ساتھ مرغی کا سا سلوک کرتے ہیں اور اسے واپس دھکیلتے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments