مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی: اک چراغ اور بجھا


دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلق رکھنے والوں میں بلکہ علم دین متین اوراردو و عربی زبان و ادب سے شغف رکھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو مولانا سید واضح رشید حسنی ندویؒ کو نہ جانتا ہو اور ان کے فضل وکمال کا معترف نہ ہو۔

گزشتہ دنوں مولانا مرحوم کی اچانک موت نے اہل علم کو گہرے صدمات سے دوچار کردیا۔ اس اچانک موت سے ہرکوئی سکتے کے عالم میں ہے۔ ملک وبیرون ملک میں ان سے محبت کرنے والے اور تعلق خاطر رکھنے والے اہل علم ودانش مضامین اور تعزیتی نششتوں کے ذریعے اپنے تاثرات کا اظہار کررہے ہیں۔ اور اس قدر والہانہ محبت اور شدت ِجذبا ت کے ساتھ کر رہے ہیں جیسے وہ مسلسل سائے میں تھے اور پھر اچانک بے سایہ ہوگئے۔ جیسے کوئی صحرا کی تپتی دھوپ میں تنہا کھڑا رہ جائے، قافلہ گزر جائے اور سواری کھو جائے۔ ایسے شخص کی کیا حالت ہوگی آپ اندازہ کرسکتے ہیں، ایسی ہی کچھ حالت مولانا مرحوم کے محبین اور متعلقین کی اس وقت ہوئی جب 16 ؍ جنوری کی صبح فجر کی اذان کے وقت معتمد تعلیمات دارالعلوم ندوۃ العلماء دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے۔

میرے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ میں نے بھی ان سے فیض حاصل کیا ہے اور انہیں تکیہ کلاں رائے بریلی اور ندوۃ العلماء کے احاطے میں چلتے پھرتے، پڑھتے پڑھاتے اور محاضرات دیتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے۔ مولانا کی ذات گونا گوں صفات کی حامل تھی۔ وہ ممتاز صاحب قلم تھے، کئی زبانیں جانتے تھے، اردو اور عربی دونوں زبانوں میں لکھتے تھے۔ انہوں نے دونوں زبانوں میں درجنوں کتابیں چھوڑی ہیں۔ ان کی تحریریں میرے خیال میں ندوۃ العلماء کے طلبہ میں اور اساتذہ میں بھی شاید سب سے زیادہ پڑھی جاتی تھیں۔

اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مولانا کے مضامین جو ’الرائد‘ میں شائع ہوتے تھے ان کے شاگر خود اپنی صوابدید پر اردو میں ترجمہ کرکے شائع کرتے تھے۔ میں نے بھی کئی مضامین کا ترجمہ کیا ہے اورمیرے ایک دوست خورشید عالم ندوی نے بھی کئی مضامین کا ترجمہ کیا ہے۔ جبکہ ہمیں مولانا کی طرف سے یا ان کے کسی معتمدِ خاص کی طرف سے کوئی ہدایت یا مشورہ نہیں ملا تھا کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے اور یہ خود ہمارے لیے بھی بہتر ہوگا۔

بس ساری بات یہ تھی کہ ہم مولانا کے مضامین پڑھتے تھے، پسند آتے تھے اور ہم ترجمہ کردیتے تھے۔ میری نظرسے ایسے بہت سارے مضامین گزرے ہیں جو مولانا کے شاگردوں نے ترجمہ کیے ہیں اور وہ بھی اسی طرح بنا کسی تحریک یا مشورے کے کیے ہیں۔ تعمیرحیات کے صفحات اس کی گواہی دیں گے اور وہ بھی جو ماہنامہ تعمیر حیات کے مستقل قاری ہیں۔

اوراس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو مولاناکی تحریر کا ظاہری حسن اور علمی وزن تھا جس سے قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا تھا اور دوسرے ان کی شخصیت کا سحر تھاکہ جو طالب علم ان سے قریب ہوجاتا وہ ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوجاتا تھا اور یہ گرفتاری کسی بھی پڑاؤ پر منقطع نہیں ہوپاتی تھی۔ آج جب مولانا اس دنیا میں نہیں ہیں تو اس بات کی گواہی وہ تمام حضرات دے رہے ہیں جو مولانا کے ساتھی تھے یا ابتدائی دور کے شاگرد تھے۔

مولانا کے مضامین ہر سطح پر اپنا ایک معیار رکھتے تھے، اسلوب تحریر بھی ادبی معیار کا تھا، علمی سطح پر بھی تقریبا ہر تحریر پرمغز ہوتی تھی، ان کی تحریروں کا اصل جوہر نقد تھا، انہوں نے مغربی تہذیب اور اخلاقیات پرجس انداز سے اور جس قدر ٹھوس دلائل اور واضح اور علمی وزن اور مومنانہ وژن کے ساتھ نقد کیا ہے کم ہی افراد کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے۔

مولانا کی شاید درست تعریف یہ ٹہرے کہ مولانا دراصل عارف باللہ تھے۔ ان کی ادبی، صحافتی اور علمی خصوصیات وخدمات ثانوی ہیں، ان کی پہلی اعلی صفت یا خصوصیت ان کا عارف باللہ ہونا ہے۔ انہیں کتاب اللہ سے حد درجے عشق تھا، ہم نے انہیں نہایت توجہ اور انہماک کے ساتھ تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مولانا صرف صاحب قلم ہی نہیں تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر ان کی خصوصیت یہ رہی کہ انہوں نے اپنے زیر تربیت سینکڑوں طلبہ کو صاحب قلم بنادیا۔ او ر نہ صرف صاحب قلم بنادیا بلکہ صاحب فکرو وژن بھی بنادیا۔ میرا تو یہ خیال ہے اورپہلے بھی تھا کہ جو طلبہ بھی ان سے علمی استفادے میں آگے رہے وہ کامیاب ہو گئے اور علم وادب اور نقد وجرح کے اُس جوہر کا وافر حصہ ان کی زبان وقلم کی طرف بھی منتقل ہوگیا جس میں مولانا کو امتیاز حاصل تھا۔

مولانا کی اس جوہری صفت کی شہادت وہ تمام حضرات دے رہے ہیں جنہوں نے مولانا کی اس خاص صفت سے تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب اپنے تاثراتی کلمات میں للھتے ہیں :

” مولانا حقیقت میں بہترین مربّی تھے۔ انھوں نے بے شمار طالب علموں کو لکھنا اور ترجمہ کرنا سکھایا۔ وہ ندوہ کے پندرہ روزہ عربی جریدہ ’الرائد‘ کے ایڈیٹر تھے۔ انگریزی اور اردو اخبارات میں اہم خبروں کو نشان زد کرکے وہ ہمیں عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے دیتے۔ ہم جیسا بھی ترجمہ کرتے، مولانا اسے اشاعت کے قابل بنا دیتے۔ وہ ترجمہ ہمارے ہی نام سے شائع ہوتا، چاہے اس میں ایک بھی لفظ ہمارا نہ بچا ہو۔ اسی تربیت کا فیض تھا کہ بعد میں میں نے کئی کتابوں کا اردو سے عربی میں اور خاصی کتابوں کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ “

ایک دوسری شہادت دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ممتاز فاضل ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب کی ہے۔ وہ بتارہے ہیں کہ مولانا مرحوم نے کس طرح اپنے زیرتربیت طلبہ کی نہ صرف علمی رہنمائی کی بلکہ ان کے ساتھ اس طرح کا عمل کیا جیسے کوئی مشفق باپ اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ان کی انگلی پکڑ کرانہیں چلنا سکھاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

”“ الرائد ”میں شائع ہونے والے مضامین وترجمے جن طلبہ یا اہل علم کے ہوتے ہیں انھیں کے نام سے شائع ہوتے ہیں، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں مولانا کا کتنا اہم حصہ ہوتا ہے، مولانا بہت محنت اور سلیقہ سے ترجموں اور مضامین پر نظر ثانی کرتے ہیں، نہایت دیدہ ریزی سے ان کو درست کرتے ہیں، اہل علم وادب پر مخفی نہیں کہ مفہوم کو برقرار رکھ کر دوسروں کی تحریروں کی اصلاح کرنا اور ان کی زبان درست کرنا ہر کسی کا کام نہیں، “ الرائد ”میں اشاعت کے لئے جو ترجمے یا مقالے آتے ہیں ان میں سے اکثر غلطیوں کا انبار اور ژولیدہ بیانی کا طومار ہوتے ہیں، مولانا ہی ان کو اشاعت کے قابل بناتے ہیں، مولانا کی اہم خوبی ہے کہ ہر ایک کا احترام کرتے ہیں، اور غلطی کو غلطی سمجھتے ہیں، کسی شخص کی غلطی کو خواہ مخواہ اہمیت دے کر رائی کا پہاڑ نہیں بناتے، بلکہ معمولی اور ناقابل التفات کام سمجھ کر اسے درست کر دیتے ہیں، برسوں مولانا کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے، لیکن کبھی مولانا کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ فلاں کے مضمون میں اس قدر غلطیاں تھیں، یا فلاں مضمون یا ترجمہ کی میں نے اصلاح کی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2