جوکر بھی مُسکرا دیا


نام اس کا جاوید اقبال سید تھا۔ اُس کی پیدائش فورٹ سنڈیمن (ژوب) میں 1937 ء میں ہوئی جہاں اُس کے والد کا ریلوے کے محکمے میں ملازمت کے سلسلے میں قیام تھا۔ 1942 ء میں احمد وال اور پھر 1943 ء میں اُس کے والد کی تعیناتی کوئٹہ ہوئی جہاں وہ اپنی مدّتِ ملازمت پُوری ہونے کے بعد بھی رہتے رہے۔ جاوید اقبال نے اپنے تعلیمی کیریئرکا آغاز کلی شیخان ہائی سکول سے کیاکہ یہ ادارہ ان کی ریلوے کی رہائش کے قریب تھا۔ پھر 1947 ء میں وہ اپنی نانی کے پاس ڈیرہ بُگٹی چلا گیا جہاں نواب اکبر بُگٹی نے اس پنجابی کے سر پر دست شفقت رکھا اور پڑھائی کے حصول کے سلسلے میں اس پر سختی کی۔ جاوید اقبال کی نانی اماں کی نواب اکبر خاں بگٹی، ایک بزرگ عورت ہونے کے ناطے، بہت عزت کرتے تھے۔

جاوید اقبال اپنی موسم سرما کی چھٹیاں گذار کر واپس کوئٹہ آگیا۔ سکول میں زائید از نصاب سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے کی وجہ سے ایک نمایاں مقام حا صل کر گیا۔ وہ بلا کا ذہین تھا۔ بوائے سکاؤٹس کے کیمپوں کے انعقاد کے اختتامی دنوں میں آخری شب کیمپ فائر کا انعقاد ہوتا۔ جاوید اس تقریب کی جان ہوا کرتاجس میں مزاحیہ خاکے اور جادو کے کھیل دکھا کر حاضرین کو محظوظ اور متحیر کر دیا کرتا۔ 1954 ء / 1955 ء میں جاوید نے گورنمنٹ کالج کوئٹہ (موجودہ سائنس کالج) سے انٹر کا امتحان پاس کر لیا۔

وہ کالج کے زمانے میں بھی بطور طالبِ علم نمایاں حیثیت کا حامل رہا۔ انگریزی، اردو مباحثوں اور تقاریر میں ہمیشہ امتیازی حیثیت کا حامل رہا۔ وہ بہت اچھا مقرر اور اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کا اچھا شاعر رہا۔ وہ بڑا ہنسوڑ، شوخ اور ہر المیے کا روشن پہلو نکالنے والا انسان تھا۔ ایک دفعہ کوئٹہ سول ہسپتال میں ہمارا ایک مشترکہ دوست عبدالباقی موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ ہم لوگ اس کی مزاج پرسی کے لئے گئے۔

ہسپتال کے اس شعبے میں ایک وقت میں ایک ملاقاتی کی اجازت تھی۔ سب سے پہلے جاوید اندر گیا تو واپسی پر پہلی بار ہم نے اس کے چہرے پر سنجیدگی کے آثار دیکھے۔ اس نے آتے ہی کہا ”یار عبدالباقی تو مُسکرا رہا ہے، وہ اب باقی نہیں رہا۔ “۔ ہم باری باری اس کا آخری دیدار کرنے گئے۔ جانکنی کے کرب کی وجہ سے شاید اس کے چہرے کے عضلات کچھ اس انداز سے کھنچ گئے تھے کہ یوں لگتا تھا کہ وہ مسکرا رہا ہے۔

جاوید کی لطیفہ گوئی کی عادت کی وجہ سے حلقہءِ یاراں میں وہ جاوید جوکر کے نام سے معروف تھا۔ وہ بڑے بڑے کلیدی سرکاری عہدوں پر متمکن رہا لیکن ہمارے لئے آخری دم تک جاوید جوکر ہی رہا۔ یہ جوکر جتنا ہنس مُکھ اور بظاہر لا اُبالی انسان تھا، باطن میں بہت حساس، جذباتی اوریاروں کا یار تھا۔ اللہ ہی جانے کون بشر تھا۔ میں نے پہلی بار اسے اس کی زندگی کی ہمسفر فریدہ بھابی کی وفات پر اُس بچے کی مانند، جس کا کھلونا چھِن گیا ہو، بلک بلک کر روتے دیکھا۔

میں جب آخری بار (نومبر 2018 ء میں ) اس کی مزاج پُرسی کے لئے اس سے ملنے گیاتو وہ کینسر کی آخری سٹیج کا روگ لئے چہرے اور آنکھوں پر سوجن کے ساتھ، 82 سال کا جوان، تب بھی مسکرا تا اور حسبِ معمول لطیفے سناتا رہا۔ وہ کتنی قابل ِ رشک ہمت والا بندہ تھا! وہ ماضی کی تصاویر ہمیں دکھاتا اور ماضی کے مزاروں کو پوجتا رہا۔ بھابھی فریدہ کی تصویر کو ہاتھ میں لئے تھوڑی دیر پیاربھری نگاہوں سے تکتا رہا اور ہمارے سامنے۔ ہاں ہمارے سامنے۔ اُس نے اپنے ماضی کی شریکِ حیات کی تصویر کو بے اختیار چوم لیا۔

اس وقت میں نے سوچا کیا یہ وہی شخص ہے؟ اپنے دُکھ کو دُکھ نہ سمجھنے والا، جاوید جوکر ہے جس نے اپنے دوست کی میّت کے چہرے کو دیکھ کر کہا تھا۔ ”باقی مُسکرا رہا ہے“ اور جو اپنی جیون ساتھی کے بچھڑنے کا صدمہ برداشت نہیں کر پا رہا۔ ایک انسان کے کتنے رُخ ہوتے ہیں!

جاوید اقبال سیّد نے بہتر مستقبل کی تلاش میں کوئٹہ سے جانے کے بعد لاہو ر کے ایک ہوٹل میں ٹیلیفون آپریٹرسے اپنا کیریئر شروع کرنے سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر تک پہنچنے کے سفر کی ایک طویل جدوجہد کی جو لوگوں کے لئے مشعلِ راہ ہے جسے بیان کرنے کے لئے ایک کتاب درکار ہے۔ اپنی متعدد تصانیف کے علاوہ اُس نے اپنی داستانِ حیات ایک کتاب No Qualms کے عنوان سے لکھی جو کہ انگریزی ادب میں ایک گرانقدر، انتہائی دلچسپ، سبق آموز اور اپنی دنیا آپ پیدا کر نے کے مِصداق مشعلِ راہ کی اہمیت کی حامل ہے۔

ان کے بھائی ہمایوں ارشد نے اس کتاب کا انتہائی موزوں اور خوبصورت اردو ترجمہ کیا جو کسی صورت بھی ترجمہ نہیں لگتا بلکہ اپنے انداز میں بالکل اصل ہی باور کیا جاتا ہے۔ جاوید اقبال کے، بہت ہی پیارے انسان، اُن کے داماد، راحت سعید کے بچپن کے ساتھی اشرف نذیر نے کتاب کے اس اردو ایڈیشن کا انتہائی موزوں اور خوبصورت نام جناب فیض احمد فیض کے ایک شعر سے اخذ کرتے ہوئے ”بجز داغِ ندامت“ تجویز کیا۔

جاوید اور مجھ میں بہت سی چیزیں مشترک تھیں۔ وہ اور میں ریلوے ملازمین کے بیٹے تھے۔ ہم دونوں نے اسلامیہ سکول کوئٹہ سے میٹرک کیا۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے مستقبل کا آغاز صِفر سے کیا۔ اس نے ٹیلیفون آپریٹر اور میں نے بھی محکمہ مردم شماری میں سارٹر کی حیثیت سے نوکری شروع کی۔ وہ بہت اچھا مزاحیہ اداکار تھا۔ میں بھی اسٹیج پر یہی گل کھلاتا رہا۔ اس کی تصانیف میں طنز و مزاح کاعنصر نمایاں تھا تو میری تحریروں میں بھی یہ صنف بدرجہءِ اتم شامل ہے۔

وہ بطور وائس چانسلر ریٹائر ہوا تو میں بھی اپنے محکمے کا صوبائی سربراہ رہا۔ اس کے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی اور میرے بھی دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ ہم دونوں کی بیٹیوں کا نام ”سعدیہ“ ہے۔ اسے بھی پراسٹیٹ کا عارضہ تھا اور مجھے بھی یہ مرض لاحق تھا۔ میں نے بروقت آپریشن کرا لیا تھا مگر وہ میرے اصرار کے باوجود آپریشن سے گریزاں رہا جوبالآخر اسے آخری منزل تک پہنچانے کا سبب بنا۔ لیکن دوسری باتوں علاوہ ایک چیز مشترک نہ تھی کہ وہ عمر میں مجھ سے دو سال چھوٹا تھا۔
میں نے اس کے وصال کی خبر دوستوں کو یہ کہہ کر بتائی ”یارو۔ جوکر بھی مسکرا دیا“۔

قاضی فضل الرحمٰن
Latest posts by قاضی فضل الرحمٰن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).