بد دعا تو ایک ہی بہت بھاری ہوتی ہے، یہ تو تین ہیں!


وہ ایک قیامت تھی جو آکر گزر گئی ہے اور اب یہ منظر! جو خود ایک قیامت ہے۔ وہ ایک نہیں تین ہیں! ظالموں نے اُن تینوں کی ننھی معصوم آنکھوں کے سامنے، اُن کے پیارے ماں باپ کو بڑی بے دردی سے گولیوں سے بھون ڈالا اور انھیں لمحہ لمحہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ لوگ آتے ہیں، بار بار اُن سے، اُن پہ بیتنے والی کتھا پوچھتے ہیں اور تاسف سے اپنا سر ہلاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں، انھیں اتنا بھی ترس نہیں آتا کہ ہر بار ایک گزری قیامت کو بیان کرنا خود قیامت ہے۔ ان کے ننھے ننھے سرخ گال اورہونٹ بار بار پھڑکتے ہیں اور ہم دیکھنے والوں کی آنکھیں، بہت سا نمکین پانی ایک دم ہی بہانے لگ جاتی ہیں۔

وہ چھوٹی سی لڑکی جو ہر وقت اپنے بڑے بھائی سے جھگڑتی رہتی ہے آج بہت چُپ ہے، اُس کی آنکھوں میں قیامت کا آخری منظر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔ اُس کے بھینچے ہوئے ہونٹ اور خلاوؤں کو گھورتی آنکھیں کسی سے کچھ نہیں کہتیں۔ ہسپتال کی تمام نرسیں اور ڈاکٹر تاسف سے اُسے دیکھتے ہیں، ارد گرد کے لوگ دل تھام کر ان کی کہانی سنتے ہیں، جسے سنانا اب اُس ننھے زخمی لڑکے کو دو بھر لگ رہا ہے۔ ننھی بچی اپنے خالی فیڈر کو پکڑے بار بار سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھتی ہے۔ اُسے شاید سمجھ نہیں آرہا کہ وہ لوگوں سے اپنے خالی فیڈر کا پوچھے یا اس فیڈر کو دودھ سے بھر کر دینے والی ماں کا۔ جسے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کچھ سیاہ پوشوں نے بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔

ان کی بڑی بہن اریبہ کے بارے میں بولتے ہوئے، ننھے لڑکے کی ایک سسکی نکل جاتی ہے، یہ وہی بڑی بہن ہے جس سے اُس کی کبھی نہیں بنی۔ وہ جب بھی اُسے تنگ کرتا تھا، اُس کی شکایتوں پر ماں ہمیشہ اپنے لاڈلے بیٹے کا ساتھ دیتی تھی۔ پر آج پہلی بار ایسا ہوا تھاکہ ماں نے مرتے وقت اُس کی جگہ اریبہ کو ساتھ رکھا اور اُسے حسرت سے یوں دیکھا تھا جیسے اُسے اپنے لختِ جگرکے بچ جانے کا بھی یقین نہ ہو۔

یہ شہر ساہیوال ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ بڑا پُر امن شہر ہے۔ پر اُن تینوں کو اب یہاں موت نظر آتی ہے۔ ایسی سفاک موت جس کی بے دردی اور سفاکیت اب کئی لوگوں کے موبائل میں نقش ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا کوئی جان سکتا ہے کہ آج وہ ننھا لڑکا کتنا بے بس ہے! اُسے رہ رہ کر اپنے بچپن اور ناتوانی پہ غصہ آتا ہے۔ وہ نہ تب اپنے ماں باپ اور بہن کی ڈھال بن سکا اور نہ اب اپنی چھوٹی بہنوں کو دلاسا دے سکتا ہے۔ لوگ اُسے چمکارتے ہیں اور بڑے تاسف سے اُس کے سامنے، ایک دوسرے کو اُس کی دادی کی صدمے سے موت کا دکھ سناتے ہیں۔

اُن تینوں کی پیاری دادی! جن کی گود میں سر رکھ کر اُن سب نے کیسی پیاری پیاری کہانیاں سنی تھیں۔ وہ ننھا لڑکاجی بھر کر رونا چاہتا ہے کہ اب وہ کتنی شفیق ہستیوں کی محبت اور سایے سے محروم ہو گیا ہے، کیا کوئی اُس کے کرب کا اندازہ کر سکتا ہے؟ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اُس کی آنکھوں نے جو خون دیکھا ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ خود اُس کی آنکھوں میں اتر آئے گا۔

مارنے والوں کو چونکہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنا محافظ خیال کرتے ہیں، لیکن ان کی سفاک آنکھوں میں اُن تین معصوموں نے نہ تو کوئی امن دیکھا اور نہ ہی کوئی رحم! شاید اُن کے پاس التجائیں سننے والی سماعت بھی نہ تھی۔ اُن تین معصوموں کی ٹھہری آنکھوں اورننھے دماغوں میں کتنے سوال ہیں، جن کا جواب انھیں کہیں نہیں ملتا۔ وہ اُن سیاہ پوشوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ ہمارے خاندان کو سچ مچ دہشت گرد ہی سمجھے تھے، تو آپ نے ہمارے منتیں کرتے، گڑگڑاتے باپ کو گرفتار کیوں نہ کیا؟

انھوں نے تو بارہا التجا کی تھی کہ ”پیسے لے لو! پر ہمیں مت مارو، جانے دو! “ امی اور اریبہ؟ انھیں کیوں مار ڈالا؟ ہماری دادی کا کیا قصور تھا؟ ہماری خوشیاں یوں روند ڈالنے کا حق اُن سیاہ پوشوں کو کس نے دیا؟ وہ بار بار روتے ہیں۔ اُن کی سسکیاں بندھ جاتی ہیں۔ بڑا لڑکا کہنی سے منہ چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر کوئی پرسہ دینے والا بڑے پیار سے اُس کے سر پہ اپنا دستِ شفقت رکھتا ہے اور اُس سے پھر اُسی قیامت کا احوال پوچھتا ہے، جسے بتانا اب اُس کی ہمت سے باہر ہے۔

وہ تین ہیں۔ اُن کا گھر انہ، اُن کی جنت اُجڑ چکی ہے۔ وہ بے سائباں یتیم، مسکین بچے! اب وزیرِ اعلیٰ کے لائے مرجھائے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر، وزیرِ اعظم کے بلند و بانگ دعووں کو سن کر اور اور اداروں کی نا معلوم افراد کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر کا جان کر بھی، خود کو جھوٹی تسلّی نہیں دے پاتے کیونکہ وہ اب ایسے بچے ہیں، جنھیں کھلونوں سے بہلانے والے مار ڈالے گئے ہیں اور اب انھیں بے سائباں، اپنے بچپن کا بوجھ اُٹھائے، دنیا کے گرم و سرد دشت میں، ننگے پیر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک قیامت اُن پر گزر گئی ہے اور اب زندگی کی کئی قیامتیں اُن کی منتظر ہیں۔ ہم دیکھنے والے! جانتے ہیں کہ نفرت اور بد دعا تو ایک ہی بہت بھاری ہوتی ہے۔
پر یاد رہے، وہ ایک نہیں تین ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).