سب بچوں کے امی ابو ہوتے ہیں۔۔۔


کل سے جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں، کتاب کھولتا ہوں، ٹی وی دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، گھر کے سامنے پارک میں معصوم بچوں کو کھیلتے دیکھتا ہوں دو معصوم بچیوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ فرشتوں جیسی پاکیزگی اور معصومیت لیکن ڈری سہمی خاموش پرچھائیاں میرے سامنے نوحہ کناں ہیں۔ میں نے ان سے فرار کے سو حیلے کر لیے لیکن وہ خاموشی سے ایک ہسپتال میں بیٹھی میرا گریبان پکڑ لیتی ہیں۔

مجھے تو اب یہ بھی دلچسپی نہیں رہی کہ ان معصوموں کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دارکون ہے؟ ستر سال کی لاقانونیت، اداروں کی فرعونیت، میری اور آپ کی مجموعی بے حسی، پی ٹی آئی، ن لیگ، عثمان بزدار، شہبازشریف یا عمران خان، یہ ماں کے جیسی ریاست یا باپ کے جیسا قانون۔

میری تین بیٹیاں ہیں اور قدرتی طور پر مجھے بیٹیوں سے زیادہ لگاؤ بھی ہے۔ انہیں باپ کی کمزوریوں کا علم ہے اور وہ اپنی بات منوانے کے لئے اکثر بلیک میل کرتی ہیں۔ اپنی فرمائشیں پوری کے لئے وہ میری ان کمزوریوں کو اپنی طاقت بناتی ہیں۔ اور میں جانتے بوجھتے ہوئے ان سے بلیک میل ہوتا ہوں کہ ان کی خوشی میرا حاصل کل ہے۔

میری بڑی بیٹی چند سال کی تھی جب اس کی ماں کو اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا۔ ایمرجنسی میں ایک ہی ٹکٹ دستیاب تھی اس لئے اسے کینیڈا میرے پاس ہی رہنا پڑا۔ سارا دن پہلے سے بھی زیادہ اس کی خدمت ہوتی، نہانا دھونا، کنڈرگارٹن، میکڈونلڈز، پیزا، کھلونے، ٹی وی شو۔ ایک رات سونے سے پہلے بابا سے چھپ کر بے اختیار رو پڑی۔ پوچھا کیا ہوا۔ بڑی مشکل سے روتے ہوئے بتایا ”بابا میں سوچ رہی تھی سارے بچوں کی امیاں ہیں ایک بچی کی نہیں“ کہا آپ کی بھی امی ہیں، کہنے لگی ”میرے پاس تو نہیں ہے نا“۔ میری بیٹی تو اپنے باپ کی آغوش میں تھی، اس کی امی بھی چند روز میں واپس آگئی تھی لیکن ان معصوموں کی ماں اور باپ دونوں جو کبھی واپس نہ آئیں گے۔

کل سے میں اپنی چھوٹی بیٹی کو بھی دیکھتا ہوں تو مجھے ہسپتال میں سہمی بیٹھی ایک معصوم کا چہرہ نظر آتا ہے۔ وہ چہرہ جس کی معصومیت کی قسم کھائی جائے، جس کی اک ادا پہ دنیا وار دی جائے، جسے دیکھ کر انسان سارے دکھ بھول جائے، جو کسی حسین تر نظارے سے بھی زیادہ دلفریب ہو۔ جسے ابھی غم اور خوشی کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جس کے لئے اس کی گڑیا کا ٹوٹ جانا بہت شدید غم ہو اور ایک چاکلیٹ، ایک کھلونا دنیا کی بڑی خوشی سے ہمکنار کردے۔

مگر وہ قیامت جو ان پہ گزر گئی کیا وہ ننھے سے ذہن ابھی اس کے ادراک کے قابل بھی ہوئے؟ اس وقت تو انہیں ابھی زندگی اور موت کی حقیقت بھی معلوم نہ ہوگی۔ جو جدائی ان کی قسمت ہو چکی انہیں تو اس کا شعور ابھی نہیں۔ ابھی تو کئی دن وہ اپنے عزیزوں سے پوچھیں گی کہ امی ابو کہاں گئے، وہ کیوں نہیں آتے؟ وہ کمروں میں، چھت پر، گلی میں جھانک کر دیکھیں گی کہ کہیں ماں باپ کی کوئی جھلک نظر آجائے۔ وہ رشتہ دارواں سے لڑیں گی کہ آپ جان بوجھ کر انہیں ان کے والدین سے نہیں ملا رہے۔

وہ کیسے قبول کریں گی کہ یہ ڈھیریاں ان کے ماں باپ ہیں؟ کہیں ڈھیریاں بھی ماں کی شفقت اور باپ کے پیار کا متبادل ہوئی ہیں؟ ڈھیریاں تو پیار نہیں کرتیں، باتیں نہیں کرتیں، لاڈ نہیں اٹھاتیں، بالوں میں ہاتھ نہیں پھیرتیں، آنسو نہیں پونچھتیں، دلاسہ نہیں دیتیں، میری جان نہیں کہتیں، گلے نہیں لگاتیں، بٹھی نہیں دیتیں۔ ڈھیریاں تو مٹی کا ڈھیر ہی ہوتی ہیں۔ کچھ اور معصوم زندگیاں تاریک راہوں میں اندھیر ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).