موجودہ حکومت: مجھ سے پہلے مرے اظہار کو موت آئی ہے


جس کے ہاتھ میں قلم ہے وہ بہت ہی خوش نصیب ہے۔ کہ رب تعالیٰ نے اسے قلم تھما کر معتبر کر دیا۔ سرورِ کائنات نے بھی قلم کے جہاد کا حکم دیا۔ جس کے ہاتھ میں قلم ہے اس کا فرض ہے کہ وہ قلم کا حق ادا کرے۔ کچھ قلکار بعض یہودی عالموں کی طرح قلم بیچنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ سچ چھپاتے ہیں، مال کماتے ہیں، کھلا کھاتے ہیں، زندگی عیش و عشرت میں گزار کر چلے جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کے چہرے پر سیاہی ملنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خود ہمیشہ کے لئے تاریخ کا سیاہ ترین باب بن کر رہ جاتے ہیں۔

کچھ صاحبِ قلم ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے اربابِ اختیار قلم چھین لیتے ہیں لیکن یہ قلم کی حرمت کو زندہ رکھنے کی جدو جہد میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں۔ وہ اذیتیں برداشت کر لیتے ہیں مگر سچ لکھ جاتے ہیں۔ سچ لِکھنے والوں پر ہمیشہ آزمائشیں آتی رہی ہیں۔ اربابِ اختیار سچ لکھنے والوں سے قلم چھیننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ قلم چھیننے، آزادئی اظہار پر پابندی لگانے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی انگلیاں کاٹ کر، کوئی جیل بھجوا کر، کوڑے لگا کر آزادئی اظہار پر پا بندی لگاتا ہے، کوئی دام لگا کر اور کوئی قلم کی روشنائی چھین کر۔

اخبارات آزادئی اظہار کا قدیم مؤثر، مضبوط اور اہم ترین پلیٹ فارم۔ گو کہ موجودہ دور میں اس کے لئے اب جدید انداز بھی سامنے آچکے ہیں لیکن اخبارات کی اہمیت اپنی جگہ مضبوط قائم و دائم ہے۔ ماضی میں آزادئی اظہار، آزادئی صحافت پر پابندی کے مختلف طریقے اپنائے جا چکے ہیں لیکن اب آزادئی صحافت پر پابندی لگانا خاصا مشکل ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی آزادئی اظہار کو چھیننے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا طریقہ واردات ایسا ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ آزادئی اظہار بھی نہ ہو سکے اور حکومت کا نام بھی نہ آئے۔

حکومت نے لکھاریوں پر پابندی لگانے کی بجائے (من پسند اخبارات کو چھوڑ کر) اخبارات کو سرکاری اشتہارات دینا بند کر دیئے، کاغذ مہنگا کردیا۔ کاغذ کا مہنگا ہونا اور سرکاری اشتہارات کی بندش مطلب اخبارات کی موت۔ یہ ایک قدیم مگر مؤثر قدم ہے اس میں لکھاری اور اخبارات سسک کر مر جاتے ہیں اور قاتلوں کا نام تک نہیں آتا۔ حکومت نے اخبارات کو سرکاری اشتہار بند کر دیئے تو اخبارات نے صفحات کم کر دیے۔ ادارتی صفحات سکڑ کر ایک صفحہ کے رہ گئے۔ ادارتی صفحہ بند ہو جائے تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے۔

حکومت نے آزادئی صحافت کو اس طرح یر غمال بنایا کہ کو ئی آہ تک نہ کر سکے۔ 1948 میں انقلاب اخبار اس کا نشانہ بن چکا ہے 1953 میں ڈان اخبار پر سرکاری اشتہارات کا دروازہ بند کر کے آزادئی اظہار پر پابندی لگ چکی ہے۔ حکومت کو آئے مشکل سے چند ماہ ہوئے ہیں لیکن اس نے ایسے ایسے بھیانک فیصلے کیے ہیں کہ مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے۔ خان صاحب نے آزادئی اظہار کے دروازے بند کر کے صحافیوں پر، ورکرز پر، لکھاریوں پر ظلم کیا ہے۔

آزادئی اظہار پر پابندی لکھاریوں کی موت ہے۔ ادب کی بے حرمتی ہے مگر افسوس ہے کہ لکھاریوں کے قتل پر ادب والے بڑے ہی ادب سے خاموش ہیں۔ قلم کی اس بے حرمتی پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی، سینیئر صحافیوں کی جانب سے کسی تحریک نے زور نہیں پکڑا۔ افراتفری کا عالم سب اپنے بچ جانے پر شادیانے بجاتے پھرتے ہیں۔ اگر آج بچ جانے والے کل کسی ظالم بھیڑئے کا شکار ہو گئے تو؟ یہ کسی نے نہیں سوچا۔ ایک قلمکار اپنا خونِ جگر جلاتا ہے تو کہیں جا کر لفظ وجود میں آتے ہیں لفظوں کو روشنائی کا لباس پہنا کر کاغذ کے سپرد کرکے دوام بخشا جا تا ہے لیکن جب آنکھیں نکال دی جائے تو کوئی کیسے دیکھے گا، روشنائی ہی چھین لی جائے تو لفظوں کو دوام کہاں سے ملے گا۔

نئے قلمکار کہاں سے جنم لیں گے۔ اہلِ قلم قلم کے بوجھ سے مر جائیں گے۔ کہاں ہیں وہ سارے بڑے لکھاری جو کبھی اپنے وجود سے آشنا نہیں تھے لیکن آج زمانہ ان کے ہونے کا متعرف ہے۔ ان پر قلم کے احسان ہیں مگر وہ قلم کا حق ادا کرنے کی بجائے قلم کو تھپکیاں دے کر سلا رہے ہیں بدقسمتی کہ قلم والے قلم کی بے حرمتی پر خاموش۔ کیا قلم کی بندش سے ان کے دل نہیں پھٹے۔ ان کے قلم سے خون جاری کیوں نہ ہوا۔ کیا مؤرخ وہی لکھے گا جو حکومتِ وقت چاہے گی۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی خاموش، گمنام مؤرخ سرکار کے ڈھائے ظلم حرف بحرف سچ لکھ جاتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ حاکمِ وقت کیسی ہی قدغن لگا لے، سچ صدیوں کا سفر طے کرنے بعد کہیں سے نکل ہی آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).