بابائے انسانیت \’\’ عبدالستار ایدھی\’\’اور ہماری ذمے داریاں


\"????????????????????????????????????\"

اسلام نے مسلمانوں کو سماجی خدمت کا شعور دیا۔ حضور ﷺ کا بوڑھے غلاموں کا بوجھ اٹھانا، بیماریوں کی عیادت اور خدمت کرنا ، بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا، جنگ کے موقعوں پر مریضوں کی مرہم پٹی کرنا ،شہیدوں کی لاشیں اٹھا نا ان کی تدفین کرنا، زخمیوں کو پانی پلانا ،غلاموں کو آزاد کروانا، انصار کا مہاجرین کو اپنے گھر پناہ دینا ، اپنے سامان میں حصے دار بنانا ایثار اور سماجی خدمت کی عمدہ مثالیں ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل بھی پاکستان میں بہت سی سماجی تنظیمیں کام کر رہی تھیں، قیام پاکستان کے بعد ان سماجی تنظیموں نے ترقی اس وقت کی جب لوگ ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کر کے آئے تو یوپی اور گجرات کے مختلف علاقوں اور برادریوں کے نام سے کراچی میں مختلف سماجی تنظیمیں قائم ہوئیں جو تاحال قائم ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ویلفیئر ونگ لازمی قائم کیا جاتا ہے۔ کراچی کے مکین مردے نہلانے، دفنانے، قبریں کھودنے ،غریب لڑکیوں کے جہیز میں میں مدد کرنے اور یتیموں، مسکینوں، بیواؤں ، محتاجوں کی مدد کے لیے تیار رہا کرتے تھے۔

دوسرے ممالک میں اگر جنگ چھڑ جاتی یا زلزلے آجاتے تو سب سے پہلے پاک فوج ہی مدد کے لیے جایا کرتی تھی، سڑی گلی لاشیں اٹھانے کا کام پاک افواج سے زیادہ باہمت طریقے سے کس نے کیا ہوگا، بسا اوقات پولیس کے سپاہی بھی سڑی گلی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر اس کام کو انسانیت کی خدمت سمجھ کر جس شخصیت نے انجام دیا ان کا نام \’\’ عبدالستار ایدھی ہے\’\’۔ آج اگر کوئی کسی سے زیادہ ہمدردی کرنے لگے تو لوگ کہتے ہیں کہ \’\’ایدھی سینٹر کھولنے کی ضرورت نہیں\’\’ کسی کے کام آنے لگو تو کہا جاتا ہے کہ \’\’کیا ایدھی صاحب کا سایا پڑگیا ہے تم پر\’\’۔ اگر کوئی بوڑھا گھر سے پریشان ہو تو اپنے بچوں کو دھمکی دیتا ہے کہ میں ایدھی سینٹر چلا جاؤں گا\’\’۔ یا بچے والدین سے عاجز ہوں تو انھیں ایدھی سنٹر میں جمع کروانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ گھر یا خاندان میں اگر کسی کا دماغی توازن درست نہ ہو تو اسے ایدھی سنٹر میں جمع کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ کسی کے گھر میت ہوجائے تو گھروں میں نہلانے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ایدھی سینٹر میں غسل دیا جاتا ہے۔ گو کہ دیگر سماجی تنظیموں کی ایمبولینس سروس اور سرد خانے بھی شہر کراچی میں موجود ہیں اور ان کے لیے بھی ایدھی سینٹر کا نام استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گھروں سے بھاگے ہوئے بچے اور کھوئے ہوئے بچے عام طور پر ایدھی سینٹر سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ محلے میں ایک بچہ جس کا ذہنی توازن درست نہ تھا کہیں کھو گیا اس کے والدین اسے تلاش کرکر کے پاگل ہو گئے۔ کئی دفعہ ایدھی سینٹر بھی گئے اتفاق سے ایک ہفتے بعد وہ سہراب گوٹھ کے ایدھی سینٹر سے دستیاب ہوا، جہاں اس نو سالہ بچے کو صبح ایک شخص جمع کروا گیا تھا۔ ایدھی سینٹر والوں نے اس کی تصویر کھینچ کر فورا نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دی تھی تا کہ کوئی ڈھونڈنے آئے تو اسے پریشانی نہ ہو۔ بچہ صاف ستھرے حلیے میں تھا ایدھی والوں نے اس بچے کو اس حد تک صاف ستھرا کر دیا تھا کہ شاید کبھی اپنے گھر میں بھی وہ بچہ اتنا صاف ستھرا نہ رہا ہو گا۔

ایدھی صاحب ایک فلاحی کام کرنے والی منفرد شخصیت تھے انھوں نے اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردی تھی۔ کبھی کسی کام کے لیے ایدھی سینٹر جانے کا اتفاق ہو تو دیکھا کہ وہاں موجود بچوں، مریضوں اور بوڑھوں کو گنجا کر دیا جاتا ہے۔ عام طور ایسی خواتین جن کے پاس خود کشی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو ان کو بنا کھڑکی اور پنکھے کے کمروں میں رکھا جاتا ہے۔ لاوارث لاشوں کی تدفین کردی جاتی ہے مگر ان کی تصویر ریکارڈ میں موجود ہوتی ہے۔ ایدھی ایمبولینسس کی یہ خاص بات ہے کہ بڑے بڑے دہشتتگردی کے واقعات میں ایدھی ایمبولینسس زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کے لیے ہمہ وقت موجود رہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایدھی کے ڈرائیور اپنی جان کے خوف سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں۔ ایدھی ایمبولینس سروس، شہر کراچی میں کئی اور ایمبولینس سروس کی بنیاد بنی جس میں چھیپا ایمبولینس، امن ایمبولینس، خدمت خلق ایمبولینس اور المصطفیٰ ایمبولینس بہترین خدمات انجام دے رہی ہیں۔ کراچی شہر میں انصار برنی ٹرسٹ، الخدمت فاؤنڈیشن، المصطفیٰ ٹرسٹ، خدمت خلق فاؤنڈیشن، پیپلز ویلفیئر فاؤنڈیشن، چھیپا ویلفیئر، سیلانی ویلفیئر، امروہہ ویلفیئر سوسائٹی، بانٹوا ویلفیئر سوسائٹی، دہلی سوداگران، چینیوٹ ویلفیئر، باڈلا، جے ڈی سی اور اس کے علاوہ بے شمار فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ مگر ایدھی فاؤنڈیشن کو ایدھی صاحب کی ذات کی وجہ سے انفرادی حیثیت حاصل ہے۔

پاکستان کے عوام عبدالستار ایدھی کی بابت منفی باتیں کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں مگر جب تک کسی بات کی تصدیق نہ ہو اس پر بات کرنا ایک محقق کو زیب نہیں دیتا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعہ کراچی کے شعبہ سماجی علوم اور خاص طور پر سوشیالوجی اور کرمنالوجی کے تحت باقاعدہ \’\’ایدھی سینٹر کی فلاحی سرگرمیوں \’\’ پر تحقیق کروائی جائے تا کہ اگر پس منظر میں کوئی منفی باتیں ہیں تو وہ منظر عام پر آسکیں۔ عبدالستار ایدھی وہ شخصیت ہیں کہ جنھیں فوجی اعزاز \’\’گارڈ آف آنر\’\’ دیا گیا جو ان کا حق تھا۔ جامعہ کراچی نے عبدالستار ایدھی کو سماجی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی عطا کی تھی۔

عبدالستار ایدھی نے پاکستان میں سماجی خدمت کے سلسلے کا آغاز 1951 میں کیا، 1957 میں ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، ملک بھر میں چار سو دفاتر کام کر رہے ہیں۔ 1928 میں بھارتی گجرات میں آنکھ کھولنے والے ایدھی 1947 میں ہجرت کر کے پاک سر زمین پر آئے۔ بچپن سے ہی دوسروں کی خدمت عبدالستار ایدھی کا شعار رہا۔ انھیں اسکول جانے کے لئے دو پیسے ملتے، ایک خود خرچ کرتے ایک سے ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔
عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی بھی خدمات کے سفر میں ان کے ہم قدم رہیں۔ ملک بھر میں پھیلی ایدھی فاؤنڈیشن کے چار سو سے زائد مراکز کام کر رہے ہیں۔ اس کے پاس دو ہزار کے قریب ایمبولینسز، تین فضائی ایمبولینسز بھی ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت ایمبولینس سروس کے ساتھ ساتھ ہسپتال، کلینکس، پاگل خانے، معذوروں کی بحالی کے مراکز، بلڈ بینک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول بھی کام کر رہے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن قدرتی آفات کے وقت پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی امدادی خدمات فراہم کرتی ہے۔

ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر جھولے کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈیشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اس کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔

پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں بھی ایسے فلاحی اداروں، ایمبولینس سروس اور ڈسپنسری کی ضرورت ہے۔ ان گناہ گار آنکھوں نے اکثر پسماندہ علاقوں سے بوڑھے، بچے، اور زچہ عورتوں کو ٹھیلوں اور ڈالوں پر ہسپتال لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں سے اکثر مریض تو راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ \’\’من حیث القوم\’\’ اور حکومت کی سطح پر ان فلاحی اداروں کی امداد و احتساب کیا جائے تا کہ یہ ادارے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مؤثر کردار ادا کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments