حلقہ ارباب ذوق اور بدلتے تنقیدی رویے


\"ghaffer\"حلقہ ارباب ذوق لاہورکا ادارہ 76 برسوں سے ادیبوں اور شاعروں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیے ہوئے ہے۔ حلقہ کا اجلاس ہر اتوار کو شام پاک ٹی ہاﺅس میں منعقد ہوتا ہے۔ تنقیدی اجلاس میں پہلے سے اعلان کردہ پروگرام کے تحت کوئی مضمون، افسانہ، خاکہ ، انشائیہ اور اس کے بعد کوئی غزل یا نظم تنقید کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ اجلاس کے معاملات ایک سینئر ادیب شاعر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو صدارت کر رہا ہوتا ہے۔ حاضرین صدر کے توسط ہی سے اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں، جس کی تخلیق زیر تنقید ہوتی ہے ، اسے گفتگو کی اجازت نہیں ہوتی۔یونس جاوید نے اپنی کتاب میں ایسے جلسوں کی روداد کا تذکرہ کیا ہے جس سے جلسوں کی اخلاقیات کے تعین میں مدد ملتی ہے۔

جب بھی کسی کوحلقہ کے اجلاس میں کوئی تخلیق تنقید کے لئے پیش کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، جواب مثبت نہیں ملتا۔ایک تعداد ان ادیبوں شاعروں کی ہے جو یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں صرف صدارت ہی کے لئے بلایا جانا چاہئے، اس لئے اگر ان کو یہ کہہ دیا جائے کہ آپ نے کوئی تخلیق تنقید کے لئے پیش کرنا ہے، تو ناراض ہو جاتے ہیں ۔ بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اب بھی انہوں نے تنقید ہی کے لئے تخلیقات پیش کرنا ہیں تو صدارت کب کریں گے؟ کچھ احباب کہتے ہیں کہ شیڈول کیا ہے اور اگر کسی نوجوان یا غیر معروف تخلیق کار کی تخلیقات شیڈول کی گئی ہوں، توان کا تقاضا ہوتا ہے کہ کسی سینئر کی کوئی تخلیق اگر شیڈول ہوتی تو وہ صدارت کر سکتے تھے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں کہ جب اجلاس میں حاضری قدرے کم ہوتی، اکثر صاحبان صدارت کے لئے راضی نہیں ہوتے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح ان کا صدارت کا موقع ضایع ہو جائے گا۔

صدارت کے لئے آنے والے کئی صاحبان خود کو اس دن سیکرٹری حلقہ کا ذاتی مہمان تصور کرتے ہیں اور اجلاس سے پہلے، اجلاس کے دوران اور اجلاس کے بعد پاک ٹی ہاﺅس میں ہونے والے تمام اخراجات کی ذمہ داری سیکرٹری کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ کئی سینئر ارکان کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کو اس روز گھر سے لانے اور پھر واپس چھوڑ کر آنے کی سہولت بھی مہیا کی جائے۔ حلقہ کے ایسے ارکان بھی ہیں جو سارا سال اس لئے حلقہ میں نہیں جاتے کہ ان کو صدارت کے لئے دعوت نہیں دی گئی۔

حلقہ کے اجلاس کے آغاز میں جب کارروائی پڑھی جاتی ہے تو کئی ارکان گذشتہ اجلاس میں اپنے کہے گئے الفاظ کے بارے میں نہایت محتاط رویہ اپنائے ہوتے ہیں اور ان کے خیال میں جو بات احاطہ تحریر میں نہیں لائی جاتی، اس پر اصرار کرتے ہیں کہ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا، یہ بات کارروائی کا حصہ کیوں نہیں بنائی گئی۔ اور صدر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کارروائی میں سے یہ الفاظ حذف کر دیں یا ان الفاظ کا اضافہ کر دیں۔ ایسے ارکان خاص طور پر اجلاس کے آغاز ہی میں آ جاتے ہیں تا کہ گذشتہ اجلاس کی کارروائی سن سکیں۔

مضامین پر ہونے والی گفتگو میں کچھ حاضرین کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ پہلے انتظار کرتے ہیں کہ کچھ اور احباب گفتگو کر لیں، پھر اپنا ایک ذہن بناتے ہیں اور پھر گفتگو کرتے ہیں۔ اس گروپ میں ایسے ارکان کی اکثریت ہے کہ جنہیں اپنی رائے پر اعتماد نہیں ہوتا ، اور وہ اجلاس میں اس جانب چل پڑتے ہیں جدھر ہوا چل رہی ہوتی ہے۔حلقہ میں اگر کسی کا مضمون یا افسانہ پیش کیا جانا ہو کہ جس نے کسی گذشتہ اجلاس میں موصوف کی تخلیق پر سخت تنقید کی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں جیسے ہی تخلیق کی خواندگی ختم ہوتی ہے، وہ صاحب فوراً تخلیق کے خلاف ایسی تقریر کر دیں گے کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن جس نے تخلیق پیش کرنا ہوتی ہے، وہ بھی اپنے ساتھ کچھ حواری لے کر آیا ہوتا ہے جو ایسی صورت حال کو کنٹرول کرتے ہیں، اور اس انداز سے گفتگو کرتے ہیں کہ خلاف کی گئی تقریر کا نہ صرف اثر زائل ہو جائے بلکہ کچھ مثبت تاثر بھی بنے کہ جسے کوئی دوسرا شخص آگے بڑھا سکے۔ ایسے جلسوں میں صورت حال میدانِ کار زار جیسی ہوتی ہے۔

شاعری کے حوالے سے تو یہ آسانی ہو جاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں وزن کی کوئی غلطی، کہیں کسی لفظ کے گرنے پر اعتراض کہ جس کی اجازت ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی، بحر اور ردیف قافیے کے استعما ل پر اعتراض، یا دو مصرعوں کے مابین تعلق نہ ہونے یا ابہام ہونے کے سبب تنقید کے کئی مواقع نکل آتے ہیں۔شاعری میں ایک آسانی یہ بھی ہوتی ہے کہ پیش کردہ نظم یا غزل کی کاپیاں کروا کر حاضرین کو دی جاتی ہیں، وہ ایک ایک مصرع پر غور کر سکتے ہیں، اس طرح ایک اچھا مکالمہ ہو جاتا ہے۔ یہ سہولت افسانے یا مضمون کی صورت میں نہیں ہوتی۔ اس لیے افسانہ پر تو وہی گفتگو کر سکتا ہے کہ جس نے توجہ سے افسانہ سنا ہوتا ہے، اس کے کرداراور واقعہ پر دھیان دیا ہوتا ہے جب کہ مضمون کے حوالے سے گفتگو کے بہت سے مواقع نکل آتے ہیں۔ مضمون کے موضوع پر حاضرین کو تقریریں کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے اس لیے مضمون کے متن پر کم اور اس سے جڑے موضوع پر زیادہ دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات موضوع سے ہٹ جانے کے سبب نقطہ اعتراض اٹھانے پر اجلاس میں بد مزگی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔اگر صدر کمزور ہو تو اجلاس کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔

چوں کہ اجلاس ہفتہ وار ہوتا ہے اور ہر ہفتے تخلیقات تنقید کے لیے پیش ہوتی ہیں، ایک لحاظ سے یہ گفتگو کرنے والوں کا بھی امتحان ہوتا ہے۔ ایک غزل کو پرکھنے یا ایک افسانہ پر تنقید کرنے کے لیے ایک رکن کے پاس کتنے زاوئیے ہو سکتے ہیں، سننے والے کچھ جلسوں کے بعد اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا گفتگو کرے گا اور کن باتوں کی جانب اشارہ کرے گا، کون سی باتیں اس کے لیے قابل گرفت ہوں گی۔ایسی صورت حال میں اکثر یکسانیت اور بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ تخلیق کار ایسا افسانہ یا نظم پیش کر دیتا ہے کہ جسے سمجھنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔اس وقت صاحب ِصدارت کے لےے بھی ایک مشکل کھڑی ہوتی ہے۔ وہ بار بار حاضرین کو گفتگو کی دعوت دیتا ہے اور حاضرین چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں، اگر کسی کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے تو وہ معذرت کر لیتا ہے کہ ابھی وہ پیش کی جانے والی تخلیق کی خواندگی میں مصروف ہے۔ ایسی خاموشی اور چپ کی صورت حال میں حلقہ کا سیکرٹری اگر گفتگو کا خوگر ہو تو وہ مدد کے لیے آتا ہے۔اگر صاحبِ صدارت گفتگو کے میدان کا شناور ہو تو وہ بھی کچھ پہلوﺅں پر بات اس طرح کرتا ہے کہ افسانہ یا نظم کو سمجھنے یا اس کی پرتیں کھولنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

اُس اجلاس کو کامیاب سمجھا جاتا ہے جس میں پیش کی جانے والی تخلیقات پر بھر پور اور طویل گفتگو ہوتی ہے۔ اس بات پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ ایسا افسانہ یا نظم اجلاس میں ضرور رکھی جاتی ہے کہ جس کے موضوع پر حاضرین سہولت سے بات کر سکیں اور صدارت کے لیے بھی ایسے ادیب یا شاعر کو ترجیح دی جاتی ہے جو گفتگو آگے بڑھا سکے۔ حلقہ کے کچھ ارکان ایسے ہیں جو کہیں نہ کہیں اردو زبان و ادب کی تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ان کے لیے کسی بھی غزل یا نثر پارہ پر تنقید یا تحسین آسان کام ہوتا ہے۔لیکن ان کا انداز مدرسانہ ہو تا ہے جسے زیادہ تحسین کی نگا ہ سے حاضرین نہیں دیکھتے۔ مگر ایسے ناقدین کی مجبوری ہوتی ہے، ویسے جہاں کوئی بات نہ بن رہی ہو ، وہاں ایسے نقادوں کی موجودگی کو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔

بعض نقاد ایسے بھی ہیں جو حلقہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے تیاری کر کے آتے ہیں۔ کسی تنقیدی کتاب سے تنقیدی تھیوری کے خیالات ذہن نشین کر کے آتے ہیں اور جہاں بھی گفتگو کے دوران مناسب لگتا ہے، وہ تھیوری پیش کر دیتے ہیں۔ وہ حاضرین جن کو ان کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا، وہ ان سے خوب متاثر ہوتے ہیں مگر ان کے اس انداز سے آگاہ حلقہ کے ارکان، جیسے ہی وہ گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، چہرے پر نا خوشگوار تاثرات لے آتے ہیں۔ ان کے سامنے دراصل ایسے دو نمبر دانشور نقادوں کی قلعی کھل چکی ہوتی ہے۔
حلقہ کے اجلاس میں باقاعدگی کی کئی وجوہات ہیں۔ جو فارمیٹ ابتدا سے طے کر دیا گیا ہے، وہ ایسا مکمل ہے کہ اس میں تبدیلی کی کوئی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ کوئی حلقہ کا ذاتی طور پر مالک نہیں ہے، سب ارکان برابر کے حصہ دار ہیں، سب میں حق ِملکیت یکساں طور پر ہے۔ مگر حلقہ کے اس فارمیٹ کی وجہ سے ایک خاص قسم کے تنقیدی رویے نے جنم لیا ہے، جسے حلقہ ارباب ذوق کی تنقید کیا جاتا ہے ۔ عام ادبی تقریبات میں اگر کوئی تنقیدی نقطہ نظر سے کسی کتا ب کی تقریب رونمائی میں گفتگو کرے تو کہا جاتا ہے، یہ حلقہ کا اجلاس نہیں ہے۔

حالات جیسے بھی ہوں، بات کسی بھی حوالے سے کی جائے، اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ حلقہ نے نوجوان شعرا اور ادیبوں کی کئی حوالوں سے تربیت کی ہے اور انہیں اعتماد بخشا ہے۔ ادب کی دنیا کے نووارد جب حلقہ کے جلسوں میں تخلیقات پیش ہوتے اور سینئر ادیبوں اور شاعروں کو اس پر تنقید کرتے دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کی نہ صرف تربیت ہوتی ہے بل کہ ان میں ایک اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کی سوچ اور ان کاتنقیدی زاویہ بالکل درست ہے۔حلقہ ارباب ذوق اگر چہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے تین سال بعد قائم ہوا مگر انجمن کے مقابلے میں حلقہ کے اجلاس تسلسل سے ہو رہے ہیں جب کہ انجمن کی سرگرمیاں کئی دہائیاں معطل رہنے کے بعد ابھی چند سال پہلے دوبارہ شروع ہوئی ہیں۔ دونوں ادبی تنظمیں ہیں، ایک کے نزدیک اگر ادب برائے زندگی ہے تو دوسری تنظیم کے ارکان’ ادب برائے ادب‘ کے ہم خیال ہیں۔ مگر وقت اورسماجی سمجھ بوجھ نے ادب کے بارے میں اس نظریاتی بعد کو بھی ختم کر دیا ہے۔ ترقی پسندوں کے ہاں اگر تخلیقی جمالیات کی اہمیت کو مان لیا گیا ہے تو دوسری جانب حلقہ ارباب ذوق سے متعلق ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تخلیقات میں سماجی اور عصری شعور کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کر لیا ہے۔

آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط میں اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ادب کے یہ دونوں پرانے ادارے فعال کیے جائیں۔ادیبوں اور شاعروں کو وقت کی اس اہم ضرورت کو تسلیم کرنا چاہیے اور عملی طور پر ان اداروں کی سرگرمیوں کو فعال بنانا چاہیے ورنہ اس وقت ان غیر ادیبوں اور متشاعروں کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے کہ جو جینوئن لکھنے والوں کو ان کے منصب سے محروم کرنے والے ہیں، ان سے ان کے تخلیقی ہونے کا یہ اعزاز بھی چھیننے والے ہیں، اس لیے کہ ایک سینئر ادیب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آج کے دور میں ادبی سرگرمی ایک سماجی سرگرمی اور میل جول کا ذریعہ بن چکی ہے اور ہمیں اسے قبول کر لینا چاہیے اور ادبی تقریبات کا انعقاد ایسی ہی انداز سے کروانا چاہیے۔اس بات کو مان لینے کے بعدنہ تو ادب رہے گا اور نہ ادیب، بل کہ وہ سرمایہ دار طبقہ کہ جن کے پاس وقت بھی ہے اور پیسہ بھی، ہر طرف وہی نظر آئیں گے۔اور شہر میں ایسے سرمایہ دار ضرورت مند بھی موجود ہیں جو معمولی قیمت پر تخلیق کاروں سے ان کی تخلیقات خرید کر اپنے نام سے پڑھنے کی روایت شروع کر چکے ہیں۔ادب قابل فروخت جنس بننے جا رہا ہے اور دنیا کی منڈی میں اس وقت چین چھایا ہوا ہے جو آپ کی قوت خرید کے مطابق ہر معیار کی جنس تیار کر کے آپ کے گھر کے دروازے تک پہنچانے کے سب انتظامات کیے بیٹھا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسا ہی کاروباری رویہ ادب کے ایوانوں میں بھی گھس آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments