ایدھی – یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد


گزشتہ کل کا وہ منظر دیدنی تھا، جب لاوارثوں ، یتیموں اور بے نام شیر خواروں کے سروں پر محافظت و نگہبانی کا سائبان تان لینے والا، ستم رسیدہ او ر اشک ریز،بے آسرا عورتوں کی اشک شوئی کرنے والا، ان کے پیراہن دریدہ کی بخیہ گری کرنے والا، سینہ فگار بوڑھوں کی غم گساری ودلجوئی کرنے، اور بلا تفریق عقیدہ و مذہب بے گورو کفن پڑی لاشوں کے لیے گورو کفن ارزاں کرنے والا انّیس توپوں کی سلامی، اربابِ اختیار کی جانب سے تسلیم و نیاز، چہار اطراف سے امڈتی، بے قابو ہوتی خلقت کے بے کراں جذبات کاٹھاٹھیں مارتا سمندر اور ہمارے باوقارآرمی چیف کیطرف سے عاجزانہ و باوقار سلیوٹ ایسے تمغے اپنے سینے پہ سجائے منوں مٹی تلے اتار دیا گیا ۔ تب دیکھتی آنکھوں نے دیکھا کہ یکایک وہ مٹی کراچی کے طول و عرض سے چن چن کر لائے ڈھیروں پھولوں تلے دب چُھپ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

یہ نصف صدی سے زائد عرصہ پر پھیلی اس کٹھن ریاضت و لگن کا صلہ تھا جس دوران وہ ستم زدگاں لوگوں کے دلوں کو فرحت بخشنے والے چمنستان کھلاتا رہا۔یہ ایک کارِ دشوار تھا جو اپنی فصیل انا سے نیچے اتر کر بھیک مانگنے اور مانگتے رہنے کا متقاضی تھا۔ کوئی روگ پال لینے اوراسے دائماً نبھانے میں کچھ فاصلہ حائل ہے۔ شاید اتنا جتنا زمین آسمان کے بیچ! یہ کارِ دشوار تھا جس میں گاہے انگلیوں کی پوروں سے لہو رسنے لگتا ہے، تب بھی ملبہ اُٹھانا پڑتا ہے۔ جن افتاد زدگاں کی ذمّہ داری کا بوجھ اُٹھایا جاتا ہے، ان خاطر ہمہ نوع مسائل کے کوہ گراں کا سامنا رہتا ہے۔حاسدین اور بد خواہوں کی جانب سے سنگ ہائے الزام اور تیر ہائے دشنام کا سامنا اس پہ مستزاد ہے۔نوع بہ نوع مسائل کی اونچی نیچی سنگلاخ راہوں پر چلتے چلتے پاؤں میں آبلے پڑ جاتے ہیں۔ زخمیوں کو اٹھاتے اٹھاتے کندھے شل ہونے لگتے اور آنکھیں رت جگوں سے سلگنے لگتی ہیں۔ یوں ہمّت شکن ساعتیں گھیر لیتی، اور اعصاب چٹخا دیا کرتی ہیں۔مگر ایدھی کی کتابِ زندگی گواہ ہے کہ کوئی مشکل،دشنام طرازی کا کوئی سا طوفان بھی اس کی ارفع خیالی کو، اس کے جذبے کے بانکپن کو گہنا نہ سکا۔ وہ دُھن کا پکا تھا۔ اس نے فرض شناسی کی تابندہ تاریخ رقم کی۔

لیکن مجھے کہنے دیں کہ دل تھوڑا حزیں بھی ہے، ایک اور منظر کے احاطہِ نگاہ ہونے پر۔

کل جب پوری دنیا اس درویش کو خراج تحسین پیش کرنے کو سوشل میڈیا پر ٹویٹس اور نت نئی پوسٹوں کی یلغار کیے دے رہی تھی، وہیں بعض نادانوں کی جانب سے ایدھی مرحوم کے مذہبی نظریات کو گرفت کرتی پوسٹوں کی بھی ایک پوری کھیپ امڈنا شروع ہو گئی۔یعنی جس شخص نے عمر بھر ان لوگوں کی خدمت کی، بلا تفریقِ عقیدہ و مذہب، وہ اس کے وقتِ رخصتی اسکے عقائد کی ٹوہ میں لگے ہوئے تھے۔اب ظاہر ہے، بہت سے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا اور انہیں تلخ و شیریں زبان میں سمجھانے کی اپنے تئیں کوشش کی۔ ایسی ہی ایک ادنٰی سی کوشش میں بھی کرنا چاہوں گا، اگرچہ الفاظ کسی سے مستعار لیتے ہوئے کہ مجھے فیس بک پر ابھرنے والے ان لفظوں کی اثر آفرینی پر قدرے زیادہ اعتماد محسوس ہوا۔ معروف سکالر طفیل ہاشمی صاحب کا ایک سٹیٹس شیئر کیے دے رہا ہوں۔ آپ نے لکھا:

دہشت گردی کرنے والے مقدس ہیں. برا کون؟ لاشیں دفنانے والا۔

بدکار تو پوتر ہیں۔ گنہ گار کون؟ تمہارے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا۔

کوڑے کے ڈرم میں اپنا گناہ انڈیلنا جائز ھے۔ حرام کیا ھے ؟اسے زندگی، عزت، تعلیم دینا۔

بوڑھے ماں باپ کو گھر سے نکالنا تمدن کا تقاضا ھے۔ بد تہذیب کون؟ انہیں ٹھکانا دینے والا۔

بیٹیوں کو بیچنا بیویوں کو مارنا شرعی حق۔ گمراہ کون؟ انہیں تحفظ دینے والا۔

مار کر برہنہ لاشیں سڑکوں پر پھینک دینا جہاد۔ مردود کون؟ انہیں کفن پہنانے والا۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ؟

ہر شہر میں دوڑتی ہوئ ایدھی ایمبولینس سروس زندگی بانٹتی تھی۔

جھولے محروم جانوں کو ماں باپ کا تحفظ دیتے۔

اولڈ ہوم خدا کے عذاب کے سامنے بند باندھتے۔

بیٹیوں اور بیویوں کو شیلٹر دے کر طوائف بننے سے روکا گیا۔

ایک ناخواندہ شخص نبی امیؐ کے نقش قدم پر چلتا ہوا محروم طبقات کے لئے سراپا رحمت بن گیا ۔\”

آخر میں ذوقِ طبع کے لیے پیر نصیرالدین نصیرؔ مرحوم کا ایک شعر پیش خدمت ہے:

جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے
یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments