حرامیوں کی تربیت اور ایدھی


سوشل میڈیا پر ابھی ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک مولوی صاحب کا موقف تھا کہ ایدھی ملحد ہے۔ جو لوگ ایدھی کو زکوۃ اور صدقہ دیتے ہیں وہ بھی اللہ کے عذاب کے لئے تیار رہیں۔ اس نے زنا کو ترویج دینے کے لئے پنگوڑھے لگائے ہیں۔ کہ عورت زنا کر کے بچہ آرام سے پنگھوڑے میں ڈالے۔ حرامیوں کے لئے پنگھوڑے لٹکائے ہیں۔ لوگوں کے خرچے پر حرامیوں کی تربیت ہو رہی ہے۔ قادیانیوں کا علاج معالجہ جاری ہے۔۔ حرامیوں کی تربیت ۔۔۔ یہ جملہ ہتھوڑا بن کر میرے دماغ پر ضرب لگاتا رہا۔ اتنی نفرت، اتنی حقارت اور اتنا غرور کسی میں کیسے آ سکتا ہے۔ کسی کو حرام کہنے والا کیا یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ حلال ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو قیامت کے دن انسانوں کو ماں کے نام سے نہ اٹھایا جاتا۔

آج ایسی سوچ کے حامل تمام لوگ اور ان کے جیسے تمام معزز و محترم مولوی و عالم دین صاحبان کس قدر پیچ و تاب کھا رہے ہوں گے کہ ایک ملحد، سیکولر اور کمیونسٹ کا ایسا شاندار جنازہ، حرامی بچوں کو پناہ دینے والے کو قوم کا ایسا خراج تحسین۔۔ توبہ توبہ! آخر یہ ممکن کیسے ہوا؟ آج ایدھی صاحب کی بے مثال تجہیز و تدفین نے ایسی سوچ کے حامل صاحبان کی نیندیں اڑادی ہیں۔ وہ جو عالم فاضل کہلاتے ہیں، ہزاروں طلبا کو درس دیتے ہیں، اپنے علم سے فیض یاب کرتے ہیں جن کو قرآن حدیث اور صرف و نحو پر عبور حاصل ہے، جن کی تقریروں اور ان میں گداز بدن کی حوروں کے تذکرے کی چار دانگ عالم میں گونج ہے۔۔۔ وہ سب عالم فاضل آج ایک ان پڑھ، تعلیم سے بے بہرہ، ملیشیا کا میلا جوڑا اور ٹوٹی جوتی پہن کر اسٹیل کے برتنوں میں دال روٹی کھانے اور سڑک پر بنا ماں باپ کے بچوں کے ساتھ بھیک مانگنے والا بازی لے گیا۔ جو ساری زندگی صرف ایمبولینس چلاتا رہا، لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہا۔ آج حرامی بچوں کی تربیت کرنے والے کو اکیس توپوں سلامی دی گئی ہے۔ جن کو لوگ سیلوٹ کرتے ہیں آج انھوں نے ایدھی کو سیلوٹ پیش کیا ہے۔ آج ایک ایسا شخص فصیح و بلیغ بیان دینے والوں پر بازی لے گیا جس کو درست طریقے سے اردو بولنا بھی نہیں آتی تھی۔

ایدھی نہ کوئی سیاسی شخصیت تھا نہ کوئی مذہبی پیشوا پھر ہر آنکھ اشکبار کیوں ہوئی؟ قوم نے یک جان ہو کر اتنے شاندار طریقے سے مرنے والے کو خراج تحسین کیوں پیش کیا؟ ہم میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہی نہ تھے کہ ایدھی صاحب کے خیالات کمیونسٹ ہیں یا شرعی۔ وہ شیعہ ہیں یا سنی، وہابی ہیں یا بریلوی۔۔ کسی کو ایدھی صاحب کے فرقے کا علم تھا نہ فکر۔ کیوں کی ایدھی صاحب نے آج تک مذہب پر بات ہی نہ کی۔ ان کا مذہب انسانیت تھا اور وہ ساری زندگی رنگ و نسل مذہب و فرقے سے بالا تر ہو کر انسانیت کے لئے کام کرتے رہے۔ نبی کریم رحمۃ للعالمین ﷺ کی پیروی اس سے بہتر انداز میں اور کوئی نہیں کر سکتا جیسے ایدھی صاحب نے کی۔

ایدھی کے نزدیک ہر پیدا ہونے والا بچہ اللہ کی رحمت تھا اسی لئے انھوں نے پنگھوڑے کا تصور دیا۔ کچرے کے ڈھیر پر پیدا ہونے والے بچے کو پنگھوڑے تک پہنچا دیا۔ یہ کسی نفع نقصان کی سمجھ بوجھ رکھنے والے کے بس کی بات نہیں۔ کوڑے سے پنگورے تک کا سفر کوئی ایسا شخص ہی کروا سکتا ہے جو بے غرض ہو، لالچی نہ، ہو جس کو جنت کی طمع نہ ہو، دولت کی حرص نہ ہو، شہرت کی تمنا نہ ہو، جو ہر خواہش اور عقیدے سے بے نیاز ہو۔ جس کو یہ خوف نہ ہو کہ حرام کے بچے کو پال پوس کر بڑا کیا تو جنت کا دروازہ میرے اوپر بند ہو جائے گا۔ قبر میں فرشتہ پہلا سوال کہیں پنگھوڑے میں پلنے والے بچے کے متعلق نہ کر لے۔ پھر میں کیا جواب دوں گا؟ اگر ایدھی صاحب کو قبر کا خوف ہوتا تو وہ پچیس برس قبل اپنی قبر نہ کھودتے۔ قبر کا خوف ان کو ہوتا ہے جن کے اعمال کا وزن بھاری ہوتا ہے۔ ایک فرشتے کو بھلا فرشتے کے سوالوں سے کیسا ڈر؟

ایسا بے غرض بندہ صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی خوش بختی کہ ایدھی جیسا شخص یہاں پیدا ہو گیا۔ جہاں معاشرہ بے لباس ہو، تار تار ہو، تو اس کے ننگے جسم کو دکھانا گناہ سمجھا جاتا ہو، جہاں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دئے جانے والے شیر خوار بچے کو حرامی قرار دے دیا جائے اور اس کی تربیت کر نے والے کو ملعون پکارا جائے۔ ایسے قحط الرجال میں ایدھی صاحب جیسی عظیم شخصیت کا ہمارے حصے میں آنا کسی تحفے سے کم نہیں۔ جو کہتے تھے کہ۔۔ اندر کا دشمن ذاتی انقلاب سے ہی زیر کیا جا سکتا ہے۔

کچرے سے پنگھوڑے تک آنے والے بچوں کو حرامی قرار دینے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غلاظت کے ڈھیر کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ جب تک اس کو کریدا نہ جائے بد بو کے بھبکے نہیں اٹھتے۔ ہفتوں مہینوں اور برسوں کا دبا ہوا تعفن زدہ کوڑا کریدا جائے تو ایسی بو کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ منہ پر رومال رکھ کر وہاں سے بھاگتے ہی بن پڑتی ہے، یا پھر ہم اس غلاطت کا ڈھیر جمع کرنے والوں کو ہزار مغلظات بکنے لگتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ ہم بھی تو اپنا کچرا روزانہ کی بنیاد پر یہیں پر دفن کرتے ہیں، یہ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ اس ڈھیر میں ہم بھی برابر کے حصے دار ہیں۔ اگر ایسے کوڑے کو کریدنے کی کوشش کی جائے تو لوگ اس کی بدبو کی تاب نہیں لا پاتے۔ ایدھی صاھب کا جرم یہی تھا کہ انھوں نے کچرے کے ڈھیر کو کرید ڈالا۔۔ جس کے تعفن سے بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھلنے کا ڈر تھا۔

 مجھے رشک ہے ان لاوارث بچوں پر جن کی تربیت ایدھی جیسے فرشتہ صفت انسان کے زیر سایہ ہوئی۔ یہ بچے ہم سب سے زیادہ خوش قسمت اور قابل عزت ہیں۔ برداشت رواداری مذہبی ہم آہنگی جیسے رویے کب کے ہوا ہوئے۔ اب اگر کوئی روایت سے ہٹ کر یا کسی مقدس موضوع پر کوئی بات کر دے تو فتویٰ حاضر۔ اکثر موضوعات شجر ممنوعہ تصور کئے جاتے ہیں جن پر بات کرنے سے سوسائٹی کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہم لکیر کے فقیر ہیں۔ جدت کو بدعت اور سوال کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں اور اگر کوئی سوسائٹی کے تعفن زدہ جسم سے کپڑا ہٹا دے تو وہ ہم میں سے نہیں رہتا۔

یقین جانئے ایدھی ہم سب سے زیادہ بڑا، پکا اور سچا مسلمان تھا۔ تبھی تو وہ اپنا سب کچھ اس قوم پر وار گیا۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کے زیر سایہ پلنے والے لاوارث بچے بڑے ہو کر اسی کے جیسے بے غرض، بے خوف اور بہادر انسان بنیں گے۔ تمام ایسے انتہائی پڑھے لکھے مفتیان کے لئے ایک سادہ لوح، ناخواندہ ایدھی کی یاد رکھی جانے والی بات ۔۔۔ مقدس کتاب تمہاری روحوں میں کھلنی چاہئے، گود میں نہیں۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments