ریاستی دہشت گردی : معلوم اور نامعلوم کی کہانی


اجازت ہو اور جان کی امان ملے تو یہ سوال پوچھنے میں کوئی حرج نہیں کہ کیا ریاست مدینہ میں بھی معصوم بچوں کے والدین کو ان کے سامنے اسی طرح بے دردی سے قتل کیا جاتا تھا جیسے ہماری ریاست میں کیا گیا؟ اور کیا ریاست مدینہ میں بھی ریاستی دہشت گردی کی گنجائش ہوتی ہے؟

یہ سوال بھی پوچھنا چاہیئے کہ والدین کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے اور ان کی لاشوں کی ویڈیوز بنتے ہوئے دیکھنے کے بعد سپاٹ لہجے میں میڈیا کو موت کی کہانی سنانے والے نو سالہ بچے سے بڑی بھی کوئی جے آئی ٹی ہو سکتی ہے؟ اور ان معصوم خوف زدہ،  سہمے ہوئے بچوں کی گواہی کے بعد کیا کسی اور گواہی یا تفتیش کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ریاستی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ان بچوں کی یہ ریاست مزید بھلا کیا کفالت کر سکتی ہے؟

ایک لفظ ہم ہمیشہ سے سن رہے ہیں ’نا قابل تلافی‘ اس لفظ کا مطلب نہ کبھی ہم نے جاننے اور محسوس کرنے کی کوشش کی اور نہ کبھی آپ نے اس لفظ کے بارے میں کبھی اس طرح غور کیا ہوگا ۔ ہفتہ کے روز پیش آنے والے اس واقعے نے بتا دیا کہ ’ناقابل تلافی‘ دراصل ہوتا کیا ہے؟

جن بچوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین کو ہاتھ جوڑتے اور معافیاں مانگتے اور پھر خون میں لت پت دیکھا ہے، تحریک انصاف کی حکومت بھلا انہیں کیا انصاف دے گی؟ کیا اس جرم کی کوئی تلافی ہو سکتی ہے؟کیا ان بچوں کو ان کے والدین واپس مل سکتے ہیں ؟ کیا ذمہ دار افراد کو سزا دے کر ہم ان بچوں کے دکھوں کو ختم کر سکتے ہیں جنہیں والدین کے بغیر زندگی کا طویل سفر تنہا کاٹنے کی سزاملی ہے؟

کیا ان بچوں کی سزا مجرموں کو دی جانے والی کسی بھی سزا سے زیادہ ہو سکتی ہے؟ اس کے سامنے تو موت کی سزا بھی بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ موت کی سزادے کر تو دراصل ہم مجرموں کو تکلیفوں سے آزاد کر دیتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا قانون بن سکتا ہے کہ جس کے تحت مجرموں کو وہی سزا دی جا سکے جو انہوں نے ان بچوں کو دی ہے؟

اگر ایسا کوئی قانون بنانا اس بظاہر مہذب معاشرے میں ممکن ہی نہیں تو پھر بلاوجہ کی دہائی اور شور شرابے سے کیا فائدہ؟ کیا ہوا اگرہمارے سادہ لوح وزیراعلیٰ سارا دن میانوالی میں گزارنے کے بعد اس واقعہ کے بارہ گھنٹے بعد گلدستہ لے کر یتیم بچوں کی عیادت کے لئے ہسپتال پہنچ گئے اور کسی پروٹوکول والے نے انہیں یہ بتانے کی جرات بھی نہ کی کہ موت والے گھر میں پھول دینا مناسب نہیں ہوتا کہ یہ اس خاندان کے لئے کوئی خوشی کا لمحہ تو نہیں ہے لیکن حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ مارنے والوں نے بھی کسی کے حکم کی تعمیل کی تھی اور بے چارے وزیراعلیٰ بھی حکم کی تعمیل کرنے ہی آئے تھے۔

گزشتہ رات ہم میں سے بہت سے لوگوں نے جاگ کر گزاری۔ شاید ہم جاگ کر ان بچوں کے دکھوں کا کفارہ ادا کرنا چاہ رہے تھے جنہیں ابھی معلوم ہی نہیں کہ آنےوالے دنوں میں کون کون سے دکھ ان کے منتظرہیں۔ یہ تکلیف دہ لمحات عمر بھر ان بچوں کا تعاقب کریں گے۔ ممکن ہے زندگی کے کسی لمحے میں وہ انتقام لینے کی بھی ٹھان لیں۔ اور خود بھی کوئی موت کا راستہ چن لیں۔

وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے سب سے بڑاظلم تو یہی کیا کہ ان بچوں کو زندہ چھوڑ دیا اور ان معصوم بچوں کی سچی گواہی کے نتیجے میں ان کا داعش والا بھانڈا بھی بیچ چوراہے میں پھوٹ گیا۔ لیکن آفرین ہے ان طاقتور اسلحہ برداروں پر کہ ہمت انہوں نے اب بھی نہیں ہاری۔ جیسے لفظ ”ناقابل تلافی “کے معانی ہم پر اب آشکار ہوئے ہیں بالکل اسی طرح لفظ ڈھٹائی کی معنویت بھی پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئی۔ ہم بلاوجہ ہر کسی کو ڈھیٹ کہتے رہتے ہیں۔ ڈھیٹ تو لوگوں کو اقتدار بنا دیتا ہے اور پھر وہ اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لئے سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ واقعہ سب کے سامنے رونما ہوا۔ ویڈیو کے اس دور میں راہ گیروں نے فلمیں بنا کر سارا مقدمہ عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا اور یہ بے چارے حکمران جنہیں ہر نئے ویڈیو کے ساتھ نیا بیان دینا پڑ رہا ہے۔ داعش کی جو کہانی انہوں نے یہ واقعہ رونما ہونے سے پہلے تیار کی تھی وہ اس پر صدق دل سے قائم ہیں، او ربچوں کے سامنے ان کے والدین کے قتل کو معمول کا واقعہ بھی کہہ رہے ہیں ۔

دوسری جانب ہم اور آپ ہیں جو کل سے اس واقعے کا ماڈل ٹاﺅن والے واقعے کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ ماڈل ٹاﺅن واقعہ پر احتجاج کرنے والے اب احتجاج کیوں نہیں کر رہے؟ اب استعفیٰ کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے؟ اور اب کیوں نہیں پوچھ رہے کہ سیدھی گولی کے احکامات کس نے جاری کئے تھے؟ وہ اب یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہر بے گناہ کے قتل کی ذمہ داری وقت کے حکمران پرعائد ہوتی ہے اوردوسری جانب وہ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ جب ماڈل ٹاﺅن والا واقعہ پیش آیا تھا، اس وقت آپ کیوں خاموش رہے تھے اور اب شور کیوں مچا رہے ہیں۔ حضور کہنا صرف یہ ہے کہ جرم کی کوئی دلیل نہیں ہوتی اور وحشت اور بربریت کا کوئی موازنہ نہیں ہوتا۔

آخری بات یہ کہ جس طرح اس مقدمے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوئی ہے اس سے اس مقدمے کے انجام کا بھی پتہ چل گیا۔ جس طرح اب تک کسی نے اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا، اسی طرح کبھی یہ بھی معلوم نہ ہو سکے گا کہ وردی والے دہشت گردوں نے کس کے حکم پر یہ ظلم کیا۔ اور اس لئے معلوم نہ ہو سکے گا کہ ایف آئی آر میں نا معلوم افراد لکھ دیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).