رحمان فارس کی ”عشق بخیر“



شاعر سعد اللہ شاہ کہیں سے عمران خان کیلئے یہ نیک مشورہ ڈھونڈ لائے ہیں ۔ان کے مطابق عمران خان کو چاہئے کہ وہ جتنا وقت ورزش میں گزارتے ہیں اتنا وقت مطالعہ کیلئے بھی نکالیں۔ یہ مشورہ عمران خان تک پہنچتا ہے یا نہیں ؟ پھر وہ اسے مانتے بھی ہیں یا نہیں ؟ اسے چھوڑیں ، کالم نگار اپنے آج کے کالم میں ایک شاعر اور اس کی کتاب کو لے آئے ہیں۔ رحمان فارس ہماری نوجوان نسل کے ایک مقبول شاعر ہیں۔یہ حسرت موہانی کی طرح ہی اپنی منکوحہ کو اپنی محبوبہ ماننے کے دعویدار ہیں۔اب اللہ جانے یہ سچ ہے یا پھر یہ خوبرو نوجوان شاعر اپنی بیوی اور زمانہ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ اس بیورو کریٹ شاعر کو مرتضیٰ برلاس جیسی افسروں میں شاعر اور شاعروں میں افسر شمار ہونے والی الجھن درپیش نہیں۔ موصوف ہر دو جگہ ایک پیارے دوست شمار ہوتے ہیں۔ شاعری کے ”ٹکٹ“ پر پوری دنیا گھوم آئے ہیں۔ کالم نگار کا ان سے تعارف ان کی نظم ”مشال خاں کا نوحہ “ سے ہوا۔ مشال خاں ہماری آج کی کربلا کے شہید ہیں۔

میری دہائی سنیں، اے محمد عربی !
میں پیاسا قتل، ہوا ہائے میری تشنہ لبی
حضور! میں نے نہیں کی تھی کوئی بے ادبی
مری تو چیخیں بھی سب رہ گئیں تھیں دبی کی دبی
بغیر جرم اذیت کے گھاٹ اتارا گیا
حضور والا! مجھے بے قصور مارا گیا

رحمان فارس اپنے رب سے اپنے دین کی بجائے عشق کی سلامتی مانگتے ہیں۔’دین سلامت ہر کوئی منگے ‘عشق سلامت کوئی ھو‘۔اسی لئے انہوں نے اپنی شاعری کی پہلوٹی کی کتاب کا نام بھی ”عشق بخیر“ رکھا ہے ۔ اس میں سے کالم کی سپیس مد نظر رکھتے ہوئے انتخاب….

کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
پھر اس کے بعد عطا ہو گئی مجھے تاثیر
میں رو پڑا تھا کسی کو غزل سناتے ہوئے
عہد وفا سے کس لئے خائف ہو، میری جان!
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں

وہ عشق تو کرے گا مگر دیکھ بھال کے
فارس وہ تیرے جیسا دوانہ تو ہے نہیں
تو نے بہت خراب کیا ہے مجھے مگر
اس شعر میں خراب کا مطلب کچھ اور ہے
اس فتنہ گر ہجوم کو سمجھایئے، جناب!
قوموں میں انقلاب کا مطلب کچھ اور ہے
مقصد فقط چھپانا نہیں خدو خال کو
فارس میاں ! حجاب کا مطلب کچھ اور ہے
عشق وہ علم ریاضی ہے کہ جس میں فارس

دو سے جب ایک نکالیں تو صفر بچتا ہے
آپ کی آنکھیں اگر شعر سنانے لگ جائیں
ہم جو غزلیں لئے پھرتے ہیں ٹھکانے لگ جائیں
بتا رہے ہو کہ رسمی دعا سلام ہے بس
دعا سلام کا مطلب دعا سلام ہے کیا ؟
بری کرانا ہے ابلیس کو کسی صورت
خدا کے گھر میں کسی سے دعا سلام ہے کیا ؟
عشق وہ ساتویں حس ہے کہ عطا ہو جس کو
رنگ سن جاویں اسے ،خوشبو دکھائی دیوے
قدم قدم پہ توازن کی بات مت کیجئے
یہ میکدہ ہے یہاں لڑکھڑانا بنتا ہے
قبروں کے دکھ سے کم نہیں کچے گھروں کے دکھ
تم زندہ نعشوں یعنی مکینوں سے پوچھ لو
چوتھا گواہ اندھا ہے ، حد کس طرح لگے
عینی گواہ تین ہیں، تینوں سے پوچھ لو
دیکھنے والا تھا منظر جب کہاں درویش نے
کج کلاہو! بادشاہو ! تاجدارو! تخلیہ

یہ دور عرض سخن کا نہیں سکوت کا ہے
ابھی اثاثہ لوح و قلم سنبھال کے رکھ
زباں پر مصلحت دل ڈرنے والا
بڑا آیا محبت کرنے والا
خدا گواہ کہ مَے جیسا لطف دیتی ہے
تیری بنائی ہوئی گرم چاہئے بارش میں
میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سکوں کی طلب
عشق ہو ، وقت ہو ، کاغذ ہو ، قلم ہو ، آمین
پھر قحط سے مرے ہوئے دفنا دیئے گئے
اور چیونٹیوں کے رزق میں برکت عطا ہوئی
مے خوار یار بھی تھے وہیں مے فروش بھی
دوزخ میں ہم کو چھوٹی سی جنت عطا ہوئی
سر سے لے کر پاﺅں تک ساری کہانی یاد ہے
آج بھی وہ شخص مجھ کو منہ زبانی یاد ہے
میں کڑھتا رہتاہوں یہ سوچ کر کہ تیرے پاس
فلاں بھی بیٹھا ہو شاید فلاں تو ہو گا ہی
تمہارے سامنے رکھی ہیں میں نے راہیں دو
سو ایک چن لو ، محبت کی ؟ یا محبت کی
تمہیں لاکھوں کی طلب اور میرے بٹوے میں
گر بہت بھی ہوئے، ہونگے یہی دو چار میاں !
پہلی نظر میں یار مجھے حفظ ہو گیا
سو دوسری نظر کی ضرورت نہیں رہی
ایک انگڑائی میرے سامنے لہرانے لگی
آیت احسن تقویم سمجھ آنے لگی
کیا کہا؟ ہجر گزارا ہے؟ چلو بتلاﺅ
ایک لمحے میں بھلا کتنے برس ہوتے ہیں ؟
بچہ ہے ، اس کو یوں نہ اکیلے کفن میں ڈال
ایک آدھ گڑیا ، چند کھلونے کفن میں ڈال


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).