ترکی کا نیا #10YearChallenge چیلنج: ‘حجاب نہ پہننا آزادی ہے تو حجاب پہننا بھی آزادی ہے‘


حجاب، ترکی

سوشل میڈیا پر نئے سال کے ساتھ کھیل کھیل میں شروع ہونے والا دہ سالہ چیلنج جہاں نئے نئے پہلو پر لوگوں کے نظریات کو پیش کر رہا ہے وہیں بعض سنجیدہ موضوعات پر بھی بات ہو رہی ہے۔

ساری دنیا میں اپنی اپنی طرح کے چیلنجز سامنے آئے ہیں کہیں حکومت کو نشانہ بنایا گيا تو کہیں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر بات کی گئی ہے۔ کسی نے دس کی جگہ پانچ سالہ چیلنج کی مہم چلائی ہے جیسا کہ ہندوستان میں بی جے پی حکومت نے تو معرف تاج ہوٹل نے صد سالہ چیلنج کے ساتھ اپنے ممبئی کے ہوٹل کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں کون شرکت کر سکتا ہے۔

جبکہ ترکی میں خواتین نے اس چیلنج کو دوسری سطح پر پہنچایا ہے اور اپنی پرانی حجاب والی تصاویر سے آج کی بغیر جحاب والی تصاویر پوسٹ کی ہیں اور خواتین کی آزادی کے تصور کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے دس کی جگہ ایک سالہ چیلنج پیش کیا ہے۔

دنیا بھر میں اس قسم کی تصاویر میں جہاں عمر اور وقت کے فرق کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں ترکی میں حجاب کے پہننے اور چھوڑنے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

ترکی میں حجاب بہت متنازع فیہ مسئلہ رہا ہے۔ وہاں ایک عرصے تک جحاب پر دفاتر، عوامی مقامات اور سکول کالجوں میں پابندی رہی ہے۔ تاہم گذشتہ دنوں رجب طیب اردوغان کی حکومت کی جانب سے اس میں نرمی نظر آئی ہے۔

دوسرے عرب ممالک میں اگر ایسی تصاویر سامنے آتیں تو بات سمجھ میں آتی لیکن ترکی میں جہاں اس کا پہننا لازمی نہیں وہاں سے اس طرح کی بحث کی ابتدا حجاب پر عالمی بحث کا غماز ہے۔

ترکی کی خواتین نے اپنی دو تصاویر ڈالی ہیں جن میں سے ایک حجاب کے ساتھ اور دوسری حجاب کے بغیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین نے حجاب سے باہر آنے کی اپنی وجوہات بھی بیان کی ہیں۔

جب کئی خواتین نے ایسی تصاویر ڈالیں تو سوشل میڈیا پر حجاب پر مباحثہ شروع ہو گیا۔

سیکولر نظریات کے حامل کے خیال میں حجاب سیاسی اور مذہبی تعصب کی علامت ہے اور صدر اردوغان پر مذہبی ایجنڈے کے نفاذ کا الزام لگتا رہا ہے۔

بعض خواتین محض سماجی دباؤ کی وجہ سے حجاب پہنتی ہیں اور گاہے بگاہے اس کے متعلق ترکی میں بھی گرما گرم بحث نظر آتی ہے۔

دنیا میں دوسری جگہ 10YearChallenge# میں لوگ اپنی تازہ تصویر کے ساتھ دس سال پرانی تصاویر ڈال رہے ہیں جبکہ ترکی میں دس کی جگہ ایک سالہ چیلنج نظر آتا ہے جس میں خواتین اپنی ایک سال پرانی حجاب والی اور نئی بغیر حجاب والی تصاویر ڈال رہی ہیں۔

https://twitter.com/NazanBalkaya34/status/1085981875116695552

ان میں سے ایک نزان ہیں جنھوں نے پیراگلائڈنگ کرتے ہوئے اپنی تصویر ڈالی ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ‘یہ ظاہر کرنا بہت مشکل ہے کہ آپ جو کچھ سوچتے اور اگر وہ کر لیتے ہیں تو کتنا خوبصورت احساس ہوتا ہے۔’

ایک دوسری خاتون جوزفن نے لکھا: ‘میں نے ایسی کسی لڑکی سے بات کی جسے سات سال کی عمر میں اپنا سر ڈھکنا پڑا تھا، جسے 14 سال کی عمر میں فروخت کیا گیا تھا (طالبعلمی کے زمانے میں) لیکن وہ جس نے کبھی جدوجہد سے رخ نہیں موڑا۔ میں ان خواتین سے مخاطب ہوں جن کے دلوں میں طوفان ہے کہ خود کو کبھی تنہا اور شکست خوردہ محسوس نہ کریں۔۔۔’

اس قسم کے کئی ٹویٹس کو ایک آن لائن پلیٹفارم ‘یو ول نیور واک الون’ یعنی آپ کبھی تنہا نہیں نے ری ٹویٹ کیا۔

https://twitter.com/kirazcicegi_/status/1086257338242269184

شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس ویب سائٹ کی بانی نے بی بی سی ترکی کو بتایا کہ ‘ان کا مقصد ترکی کی خواتین کو یہ احساس کرانا ہے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں اور ان کے مشکل وقت میں بہت سی خواتین ان کے ساتھ ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ ’13 – 14 سال کی عمر میں کسی کو بھی اس قسم کی پوشاک پہننے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہے۔’

چند مزید پوسٹس

بشری نور کہتی ہیں: ‘ہم آزاد ہیں اور ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق کام کر سکتا ہے۔ اس کا ہمارے والدین اور رشتہ داروں سے سروکار نہیں۔ ہمارے خیالات ہم سے تعلق رکھتے ہیں اور ہماری فکر آزاد ہے۔ ہم دوسروں کے طے کیے ہوئے کرداروں کو کیوں نبھاؤں۔’

https://twitter.com/mistiktanrica/status/1086000508651876353

ایک دوسری ٹوئٹر صارف ممنونیہ ملک نے لکھا: ‘میں ہمیشہ مسکراتی ہوں لیکن زندگی ہمیشہ پھولوں کی سیج نہیں۔ امام ہاتف ریلیجیئس ہائی سکول سے گریجویٹ ہونے کے طور پر میں ہی تھی جو یونیورسٹی میں حجاب پہننے کے اختیار کے بارے میں لڑ رہی تھی۔ لیکن گذشتہ آٹھ سالوں میں ہی حجاب نہ پہننے کے حق کے لیے بھی لڑ رہی ہوں۔ اندرونی کشمکش سے نمٹنے میں مجھے ایک لمبا وقت لگا اور پانچ سالوں تک یہ میرے رشتہ داروں اور قریبی سماج سے میری لڑائی کی طرح رہا۔’

دوسرا نظریہ

ترکی میں اس مہم کے خلاف بھی لوگ تبصرہ کر رہے ہیں۔ بعض حجاب پہننے کے اپنے حق کی وکالت کر رہے ہیں۔

ایک صارف الف نے ایک سالہ چیلنج (1YearChallenge#) کے ساتھ لکھا: ‘ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ ہم خوبصورت اور آزاد ہیں۔ ہم اپنے حجاب کے ساتھ آزاد ہیں۔ آپ جو سوچتے ہیں سوچتے رہیے۔ یہ ہمارا اپنا عقیدہ ہے۔ ہم صرف اپنے بارے میں کہہ سکتے ہیں آپ کے بارے میں نہیں۔’

https://twitter.com/ademarslan/status/1086494822607798272

مباحثے میں مرد بھی شامل

آدم ارسلان نامی ایک صارف نے لکھا: ‘کوئی بھی اپنی مرضی سے خود کو باحجاب یا بے حجاب رکھ سکتا ہے۔ اس سے کسی دوسرے کو مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے ان لوگوں کی تصویریں دیکھی ہیں جنھوں نے گذشتہ دنوں حجاب ترک کیا ہے۔ میرے خیال سے یہ کچھ حد تک کھوکھلی باتیں ہیں۔ آپ کو حجاب پہنے اور نہ پہننے والے دونوں کی عزت کرنی چاہیے۔ ہتک آمیز بیان دینا بند کریں۔’

https://twitter.com/zeyno1606/status/1086183959766200320

ایک دوسرے صارف زینو نے لکھا: ‘حجاب کو آزادی سے جوڑنا سخت گیری ہے۔ آزادی کا مطلب بغیر کسی کے دباؤ کے اپنی مرضی سے کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کبھی کبھی خود کو چھپانا بھی آزادی ہوتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp