سانحہ ساہیوال: کچھ حقیقت پسندی کی ضرورت ہے


سانحہء ساہیوال کا احوال رقم کرنا بے شک بڑے دل گردے کا کام ہے۔ دل لہو اور انگلیاں فگار کرنا پڑتی ہیں۔ یہ سانحہ بلا شبہ اپنی سفاکی، زہرناکی اور سنگدلی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جس نے بھی دیکھا، سنا خون کے آنسو رویا۔ پورے ملک کی فضا سوگوار اور جذباتی ہے۔ پنجاب اور وفاقی حکومت نے مظلوم خاندانوں کو بہت جلد انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ معصوم اور ننھی پریوں کی تصویریں دیکھ کر پتھرسے پتھر دل بھی پسیج گئے ہیں۔

لوگ اس لیے بھی زیادہ دردو کرب میں مبتلا ہیں کہ یہ اندوہناک سانحہ اس پارٹی کی حکومت میں وقوع پذیر ہوا جو سماجی و معاشرتی عدل و انصاف کی داعی ہے۔ حکومت نے مقتول والدین کے بچوں کی پرورش اور تعلیم سمیت ہر طرح کی ذمہ داری لینے کا مستحسن اعلان کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بہت جلد اس سانحے کے ذمہ داران عمران علی کی طرح کیفر کردار تک پہنچیں گے۔

اس سانحے کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور سنا جارہا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ واقعہ ٹاپ ٹرنڈ بن چکا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واقعہ نہ پہلا ہے نہ آخری۔ ہم پاکستانی تو ایسے سفاک اور بے رحم واقعات برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ 2011 میں کراچی میں رینجرز کے چھ سورماؤں نے 18 سالہ سرفراز کو جس طرح دہشت گرد مان کر سرعام قید حیات و بند غم سے آزاد کیا تھا، وہ ہولناک منظر بھی تلخ یاد بن کر ہمارے دلوں میں ترازو ہے۔

اسی سال کوئٹہ کے قریب خروٹ آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے بہادر سپوتوں نے پانچ چیچن باشندوں کو جن میں تین عورتیں بھی شامل تھیں، کو بے رحمی سے گولیوں سے بھون دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کرنل بلال نے یوں داد شجاعت دی تھی کہ نشانہ بازی کی مشق کرتے ہوئے نہتے مرد وخواتین پر گولیوں کی بارش کردی تھی۔ بلوچستان، کراچی، کے پی کے اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے واقعات تو معمول کا حصہ ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ تو ابھی کل کی بات ہے۔

بدقسمتی سے ایسے واقعات میں اب تک ذمہ داروں کو بوجوہ قرار واقعی سزا نہ مل سکی۔ ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے نبرد آزما ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات کا رونما ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ غمزدہ اور مظلوم خاندان کے ساتھ تمام تر انسانی ہمدردی کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایسے سانحات قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاستی اداروں کو انسانی جان کی حرمت کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے ایسے واقعات سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنا چاہیے اور طاقت کے استعمال کے اختیار کو تب بروئے کار لانا چاہیے جب دیگر تمام راستے مسدود ہو جائیں مگر اس کے باوجود ایسے واقعات کا ظہور ہو ہی جاتا ہے۔

سانحہ ساہیوال پر ابھی جذباتی فضا طاری ہے۔ ہر کوئی اس اندوہناک واقعے پر دل گرفتہ اور افسردہ ہے۔ آہستہ آہستہ جب جذباتی بادل چھٹیں گے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کام کرنے لگیں گی تو شاید حقیقت تک رسائی ہوسکے گی۔ حکومت نے اس سانحے کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات بروقت اٹھا لیے ہیں اور قوم کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔ غمزدہ خاندان سے ہمدردی اپنی جگہ مگرتمام اداروں کے متحرک اور فعال ہونے کے باوجود جگہ جگہ عدالتیں لگا کر فیصلے صادر کرنا کسی بھی طور قرین انصاف نہیں ہے۔

سانحہ ساہیوال کی زہرناکی، سنگینی اور شدت اپنی جگہ مگر اس کی آڑ میں سیاسی دکان داری چمکانا کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں۔ کچھ موقع پرست اور ہوا و ہوس کے اسیر عناصراگر جذباتی فضا بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی سعی کریں گے تو انہیں باشعورعوام قطعی طور پر پسند نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی پیشہ ور ماتم گسار اور مصلحت کوش گریہ زار بھی ماتمی لباس پہن کرہر گلی چوراہے پربیٹھ کرلوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کریں تو یہ بھی غیر مناسب بات ہوگی۔

کچھ لفظوں کے سوداگر اور سحربیان و معجز نما لکھاری و کھلاڑی بھی ظلم کی اس داستان کو قلمبند کرکے اداروں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سارے قضیے میں رینٹ پر گاڑی چلانے والے مقتول مولوی ذیشان کا مبینہ کردار بھی قابل غور ہے، ایک مذہبی جماعت نے اسے اپنا کارکن بتایا ہے۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ناکے پر جب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تو اس نے اسے بھگایا کیوں؟ اہلکاروں کی سیدھی فائرنگ کا جواز تو خیر کسی طرح بھی پیش نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ بات بھی محل نظر ہے کہ مولوی ذیشان نے گاڑی روکنے کے بجائے بھگائی کیوں؟

حکومت اور اس کے اداروں پر جائز تنقید تو درست ہے مگر اس واقعے کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور دنگافساد کی فضا پیدا کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر ن لیگ کا کردار حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے سبق آموز بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ناکوں پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اور ٹھوس حکمت عملی بنائیں۔ زندگی اپنی تمام تر ہولناکیوں کے باوجود ہردم آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے۔

مقتول جوڑے کے معصوم بچوں کے لیے یہ حادثہ قیامت سے کم نہیں مگر ہمیں انہیں بھی حوصلہ دینا ہوگا تاکہ وہ بھی عام اور نارمل بچوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔ مکمل انصاف تو اس دنیا میں ممکن نہیں تاہم اس واقعے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لاکر غمزدہ خاندانوں اور عوام کا اعتماد حکومت اور اداروں پر بحال کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).