گلگت بلتستان اپنا بیانیہ فروخت نہیں کرسکا


گلگت بلتستان کے تین مسائل سیاسی جماعتوں سے حل نہیں ہوسکے اور انہیں آپس میں اتفاق و اتحادکے ذریعے چلانے کی بجائے انہیں لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچنا پڑا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع ہونے والے کیسوں کی تعداد 33 کے قریب تھی جن میں سے ان تمام کیسوں کو پنڈنگ قرار دیا جو ذاتی نوعیت کے یا پھر کسی مخصوص نکتے کے گرد تھے۔ باقی تمام کیسوں کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 17 جنوری کو سنادیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 7 جنوری کا مذکورہ فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے تین اہم نکات یا مسائل کو مشترک قرار دیا، پہلا گلگت بلتستان کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں، دوسرا گلگت بلتستان کے عوام کو کس نوعیت کے حقوق دیے جائیں اور تیسراگلگت بلتستان کی سپریم اپیلٹ کورٹ آئینی عدالت ہے یانہیں؟ ان تین نکات پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔ گلگت بلتستان کے وہ لوگ جو کسی عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئے ہوں وہ سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عدالتوں میں (چیف کورٹ، سپریم اپیلٹ کورٹ) ججز کی تقرری کے لئے جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ سپریم اپیلٹ کورٹ کے چیف جج کی عمر کی بالائی حد میں توسیع کرتے ہوئے 65 سال سے 70 سال کردیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کا گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے تعین اور لوگوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کے معاملے میں سنایا گیا فیصلہ اپنی نوعیت کا انوکھا فیصلہ ہوگا جہاں پر عدلیہ بھی ڈگمگائی ہوئی نظر آگئی کسی بھی قسم کے واضح احکامات جاری کرنے کی بجائے ہدایات جاری کردی ہیں۔ 121 صفحات پر مبنی فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد صفحات میں گلگت بلتستان کے لئے نیا صدارتی آرڈر ’گلگت بلتستان گورننس ریفارمز 2019‘ تجویز کیا ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ 14 ایام کے اندر اس آرڈر کو صدر پاکستان سے توثیق کرائیں۔

گلگت بلتستان میں LFOs کے جمود کو پیپلزپارٹی کی گزشتہ وفاقی حکومت نے 2009 میں توڑتے ہوئے صدارتی آرڈر کا نظام متعارف کرادیا اس آرڈر میں پیپلزپارٹی نے پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو صوبائی نظام دیدیا جس کے تحت اسمبلی کو اپ گریڈ کردیا اور وزیراعلیٰ، گورنر اور دیگر صوبائی سطح کے عہدوں کو متعارف کرادیا۔ مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت نے گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے معاملے میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی جس کے سفارشات نتائج سے زیادہ اہمیت کے حامل رہیں تاہم نتیجہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کی شکل میں آگیا جو کہ سب سے کم عمر نظام کہلائے گا تاہم اس آرڈر میں مقامی حکومت کو ماضی کے نسبت زیادہ با اختیار کیا گیا تھا صوبائی حکومت گلگت بلتستان اس آرڈر پر اپنا موقف صحیح طریقے سے پیش نہیں کرسکی جس کی وجہ سے عوام نے افواہوں پر کان دھرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنی کمیٹی کے سفارشات پر نہ صرف تمام سٹیک ہولڈرز نے اعتماد کا اظہار کیا بلکہ اسمبلی نے متفقہ قرارداد بھی منظور کرلی اور سپریم کورٹ میں سفارشات پیش بھی کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے پاس گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت واضح کرنے کے لئے نادر موقع تھا جسے گنوادیا اور حیران کن طور پر سپریم کورٹ نے نیا آرڈر تجویز کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس فیصلے سے قبل گلگت بلتستان کا دورہ کرچکے تھے اور انہیں ہر دورے پر آئینی حیثیت کے شکایات سامنے آئے تھے جس کی وجہ سے وہ بڑی حد تک متاثر بھی نظر آرہے تھے اور ان میں کچھ دینے کا عزم بھی نظر آرہا تھا لیکن ملغوبہ نما فیصلے کی وجہ سے الجہاد ٹرسٹ کے 1999 میں دیے گئے فیصلے کو بھی ختم کردیا اور اس فیصلے کی حیثیت تاریخی لحاظ سے سوائے شہہ سرخیوں کے کچھ نظر نہیں آتی ہے۔ الجہاد ٹرسٹ کے فیصلے میں تین رکنی بنچ قائم تھا جبکہ اب سات رکنی لارجر بنچ قائم تھا بالآخر کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے معاملے میں وفاق پاکستان بھی اس قدر ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہے جتنا خود گلگت بلتستان کے عوام۔ وفاقی حکومت نے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنائی لیکن معقول تجاویز بھی پیش نہیں کرسکیں۔ یہ صاف ستھری سی بات ہے کہ متنازعہ کشمیر کے تین حصوں میں سے واحد گلگت بلتستان ہے جس کی متنازعہ حیثیت کو کسی بھی ملک کے آئین کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ انڈیا نے اپنے آئین کے دو آرٹیکلز میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دی ہوئی ہے، جبکہ آزاد کشمیر کا ذکر بھی آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 میں ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کشمیروں کے نظا م کے ساتھ نہ کوئی سپریم کورٹ چھیڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومت۔ اس صورتحال میں سپریم کورٹ کے پاس، وفاقی حکومت کے پاس بھی اچھا موقع تھا لیکن گنوادیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اس معاملے میں بالکل ایسی ہی لگی جیسے کسی طالبعلم کا نصاب تبدیل کرکے اسے نئے سرے سے تعلیم حاصل کرنا پڑے۔

یہی صورتحال گلگت بلتستان کے عوام میں بھی موجود ہے، اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت میں بھی موجود ہے۔ باوجود طویل محرومیوں کے گلگت بلتستان کے اکثر لوگ خود کو کشمیر ہی نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کا حصہ ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں، ہر ہفتے کے بعد سیاسی قائدین کے مطالبات تبدیل ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ دیا جائے نہیں دیا جاسکتا ہے تو یہ دیا جائے اگر اس میں وفاقی حکومت کی مجبوری موجود ہے تو پھر یہ دیا جائے، ہم وفاق کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں، اتنے راستے دیے ہیں کوئی ایک پر تو عمل کریں۔

قوموں کی زندگی میں آج تک مطالبات کی اہمیت نہیں رہی ہے۔ مضبوط موقف کے ساتھ کمزور جدوجہد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اس کے مقابلے میں کمزور موقف کے ساتھ مضبوط جدوجہد کرنے والوں کو ہمیشہ منزل کے نشان ملے ہیں۔ گلگت بلتستان میں آئینی حقوق کی اس دوڑ میں جہاں سمت کا غلط تعین بہت اہم معاملہ ہے وہی پر آئینی حیثیت کے معاملے میں آئے روز بدلتے ہوئے موقف اور مطالبات، سیاسی میدان کو خالی چھوڑنا بھی سب سے اہم مسئلہ ہے۔

گلگت بلتستان کے قوم پرست حلقے اس وقت خوردبین سے بھی نظر نہیں آتے ہیں قوم پرست طبقوں پر ریاستی نظر ہونے کے باوجود انہیں بعض سیاسی معاملات میں کھلی چھوٹ ہے لیکن چھوٹ ملتے ہی اسلام آباد یا مظفر آباد پہنچنے کی بجائے وہ انڈیا، افغانستان اور بیلجیئم پہنچ جاتے ہیں جس کے اثرات ایک ایک فرد پر پڑجاتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے نفرتوں کے بیچ بوکر سیاست کی ہے، وفاقی جماعتوں کے پاس اوپر سے نیچے احکامات اور راستے ملتے ہیں نیچے سے اوپر صرف چھٹیاں جاتی ہیں، معلوم نہیں وہ چھٹیاں کہاں جاتی ہیں۔

گلگت بلتستان اپنے موجودہ صورتحال کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے موجود نہیں ہیں، اب لفظ کشمیر سے نفرت کی بنیاد پر معاملے کو جتنا الجھایا جائے گا اتنا قوم کی ترقی کا سفر دور اور محرومیوں کا سفر طویل ہوتا جائے گا۔ ریاست کی مجبوریوں کے علاوہ سب سے اہم وجوہات یہی ہیں جن کی وجہ سے گلگت بلتستان کا بیانیہ فروخت نہیں کرپارہا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ ہم متنازعہ علاقہ ہیں، نہ ہم پاکستانی ہیں اور نہ ہی ہماری کوئی شناخت اور پہچان ہے۔ ہمیں نہ متنازعہ حقوق میسر ہیں اور نہ ہی شہری حقوق میسر ہیں۔ اگر اب سپریم کورٹ نے متنازعہ قرار دیاہے تو امید ہے کہ گلگت بلتستان خود کو تنازعہ کشمیر کا اہم ترین جز سمجھتے ہوئے ان حقوق کے حصول کے لئے اور کشمیر سے اپنے رابطے بڑھانے کی کوشش کریگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).