ریاست ہٹ دھرم ہے


معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین قتل کر دیے گئے۔ خوف کا منظر ان بچوں کی آنکھوں میں ٹھہر گیا ہے۔ وہ مبہوت ہیں۔ سہمے ہوئے ہیں۔ ان کو تو یہ بھی علم نہیں کہ موت کیا ہوتی ہے۔ مرنا کیا ہوتا ہے۔ ننھی بچی منتظر ہے کہ اس کی ماں اسے فیڈر دے گی۔ اسے علم نہیں کہ اب اسے فیڈر دینے والی ماں نہیں ہے۔ شاید کئی برس اسے ماں کی موت کا علم ہی نہ ہو۔ لیکن ماں کے بدن سے دوددھ کی بجائے ابلتا خون اس کی آنکھوں میں بس گیا ہے۔

ایسی درندگی تاریخ کی کتابوں میں تو ملتی ہے مگر جنگ کے میدان میں۔ اپنے ہی وطن میں اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اس بیدردی سے انسانوں کا خون ہونا اور ریاستی اداروں کا اس خونی واردات کا دفاع کرنا بے شرمی اور ہٹ دھرمی کی اخری حد ہے۔ آج ان بچوں کے سامنے باپ کو مارا گیا ہے۔ یہ بچے بڑے ہو کر کیا کریں گے۔ کیا ان کی آنکھوں سے خوف کا منظر نکل جائے گا۔ ادھر ایک بھائی اپنے مقتول بھائی کی لاش سڑک کنارے لے کر پکار پکار کر کہ رہا ہے مجھے انصاف مت دو۔ نہیں چاہیے مجھے انصاف مگر میں محب وطن ہوں میرا مقتول بھائی محب وطن تھا اس کی لاش پر رحم کرو۔ اسے دہشت گرد نہ کہو۔ اس کی پکار فریاد بن گئی ہے۔ اس کے ساتھ میری آواز مل گئی ہے۔ اس کے ساتھ ایک ہجوم بیکراں کھڑا ہے۔ یہ ہجوم چیخ رہا ہے اور گواہی دے رہا ہے کہ مقتول ہمارے درمیان محنت مزدوری کرتا تھا۔ وہ دہشت گرد نہیں تھا۔ اسے دہشت گرد نہ کہو۔ اسے یقین دہانی کرائی جاتی ہے اب مرنے والے کی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔

اس کی رپورٹ آنے تک مقتول کو مقتول کہا جائے گا دہشت گرد نہیں۔ مجھے لیکن یقین ہے جے آی ٹی اسے دہشت گرد ہی قرار دے گی۔ اس قوم کے رہبروں کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ یہ قاتلوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ حکومت کی جھوٹی انا کی عزت اسی میں ہے کہ مقتول کو دہشت گردی می ملوث ہونے کے باعث مارا گیا ہے۔ اس کو نہ مارا جاتا تو بڑی تباہی آنی تھی۔ اس کو مار کر قوم کو بڑی تباہی سے بچایا گیا ہے۔ قوم پر احسان کیا گیا ہے۔ ادارے قوم کی جان و مال کی حفاظت میں مستعد ہیں۔

دہشت گردی میں ملوث بچوں تک کو مار دیتے ہیں۔ پوری قوم صدمے سے نڈھال ہے وزیراعظم صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔ صدمے نے ان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وہ بھی جے آئی ٹی کا انتظار کر رہے ہیں۔ موقع پر موجود گواہ سر عام مگر گواہی دے رہے ہیں کہ مقتولوں نے مزاحمت نہیں کی۔ میڈیا دہائی دے رہا ہے کہ ظلم ہوا ہے مگر جے آی ٹی کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اسے کچھ سنائی نہیں دے گا۔ کہ یہ اندھے ہیں بہرے ہیں۔ روبوٹوں کے ہاتھوں میں مشین گن پکڑا دی گئی ہے۔

احتشام اپنے بھائی ذیشان کی سفید کفن میں لپٹی سرخ لاش اٹھاتا ہے اور منوں مٹی تلے دبا دیتا ہے۔ ہجوم اپنی اپنی بے گور و کفن لاشوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنے اپنے قبرستانوں کو لوٹ جاتا ہے۔ ان کے گھر ہی ان کے قبرستان ہیں۔ جہاں قبرستانوں سے زیادہ خاموشی ہے۔ کچھ برس قبل کوئٹہ میں پانچ پناہ گزینوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ ان کی فریاد نہ کوئی کرنے والا تھا نہ سننے والا۔ پار سال کراچی میں ایک باپ اپنے بے گناہ بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہا تھا۔ اس کا قاتل تو پکڑا گیا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے تھا۔ مگر باپ بے انصاف لوٹا دیا گیا۔ وہ اپنے محسود قبیلے کے ساتھ فریاد کرتا رہ گیا۔ قاتل کو خراش تک نہ آئی۔ باپ کو وزیروں، مشیروں، حاکموں اور عادلوں نے انصاف کا یقین دلایا لیکن قاتل دندناتا پھرتا ہے۔ مقتول کا باپ اب خاموش ہے مگر اس کی آہیں ساری قوم سن رہی ہے۔ نہیں سنائی دیتیں تو ان کو جو حکومت اور طاقت کے نشے میں بد مست ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔

لوگوں کا غیظ وغضب کہاں پہنچا کھڑا ہے۔ جس طرح فیروز پور روڈ پر پولیس والوں کو بھاگ بھاگ کر جان بچانی پڑی ہے وہ ایک ٹریلر ہے کسی بڑی فلم کا جو عنقریب چلنے والی ہے جب لوگوں کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں پر ہوں گے۔ یہ ہجوم بے قرار بیٹھا ہے۔ آتش فشاں پھٹنے کو ہے۔ لاوا نکلا تو سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔

ہماری ان ساری مصیبتوں کا منبع، ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں دھکیلنے والا پرویز مشرف دبئی میں لطف و سرور کی محفلیں سجائے بیٹھا ہے۔ ہم اس عذاب مسلسل کا شکار ہیں جس نے ہزاروں کی تعداد میں ہمارے جوان اور افسر نگل لئے ہیں۔ بے گناہ مرنے والے افراد کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہم معاشی طور پر اتنے گہرے کنویں میں گر چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ معاشرتی طور پر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی، باپ اور بیٹے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔

پولیس اور سی ٹی ڈی کو اختیارات دینا اگرچہ مجبوری تھی لیکن ان کی تربیت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ عوام پہلے دہشت گردوں کے نشانے پر تھے اب انسداد دہشت گردوں کے نشانے پر۔ پہلے بھی غیر محفوظ تھے اب بھی۔ حکومت پہلے بھی مجبور تھی اب بھی۔ انصاف پہلے بھی ناپید تھا اب بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).