پرزور احتجاج


مومنہ نے الماری میں ٹنگے سلیقے سے استری شدہ مختلف ڈیزائنز کے سیاہ ماتمی ملبوسات میں سے ایک منتخب کیا اور جلدی جلدی جلوس میں جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ کپڑے تبدیل کرکے بہت مبہم سا فیس پاوڈر لگایا اور پھیکے رنگ کی لپ اسٹک لبوں پہ پھیری کہ حسن سوگوار ضرور لگے مگر حسن ہی رہے۔ دھیمی سی خوشبو کا اسپرے کیا۔ تیاری کرنے کے ساتھ ساتھ دماغ میں وہ نکات مسلسل دہرا رہی تھی جو اسے جلوس کے بعد مجلس میں خواتین کے درمیان بیان کرنے تھے۔ موبائل تواتر سے بج رہا تھا اور اسکرین پہ آنے والا نمبر اسے اپنی تاخیر کا احساس دلا رہا تھا۔

وہ جتنی جلدی جلدی تیار ہونا چاہ رہی تھی وقت اتنی ہی تیزی سے گزرتا جارہا تھا۔ تیاری میں سے وہ کچھ چھوڑ بھی نہیں سکتی تھی۔ بالآخر اس نے اپنا سیاہ عبایا اور حجاب پہنا بالوں کو اچھی طرح چھپایا اور سیاہ برانڈیڈ ہینڈ بیگ میں سے تسبیح نکالی اور بیگ کندھے پہ لٹکا لیا۔ گھر سے نکلتے نکلنے تک وہ تسبیح دائیں ہاتھ میں لپیٹ چکی تھی۔ تیز قدم اٹھاتی اپنے گھر سے دو گلی دور مین روڈ پہ جانے کے لیے بڑھی جہاں جلوس گزرنے کے بعد ایک گھر میں خواتین کی مجلس کا اہتمام تھا اور اسے خطاب کرنا تھا۔ مگر لگ یہ رہا تھا کہ جلوس یا تو پہنچنے والا ہے یا پہنچ چکا ہے۔ اگر جلوس پہنچ چکا ہوگا تو اس کا مطلوبہ گھر تک پہنچنا ناممکن ہو جائے گا۔ ویسے تو اس گھر کا ایک اور دروازہ پیچھے کی طرف بھی کھلتا تھا لیکن حفاظتی مجبوریوں کے تحت جلوس والے دن وہ رستہ رات سے ہی بند کردیا جاتا تھا۔

وہ چلتی جارہی تھی اور دو گلی کا فاصلہ نمٹنے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا وہ مین روڈ پہ کبھی نہیں پہنچ پائے گی۔ اسے عجیب سی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ وہ کئی بار مجالس میں تاخیر سے پہنچتی ہی تھی۔ بلکہ یہی کوشش کرتی تھی کہ جہاں جائے وہاں اسے انتظار نہ کرنا پڑے مگر کبھی ایسی گھبراٹ محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ مین روڈ سے کچھ دور ہی تھی کہ اسے گریہ و ماتم کی آوازیں آنے لگیں۔ جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ جلوس وہاں پہنچ چکا ہے۔

مگر آوازیں اتنی بلند تھیں جیسی زمین و آسمان سے بھی نادیدہ مخلوق گریہ کر رہی ہو۔ سورج مغرب کی طرف جھکنے لگا تھا اور آسمان سرخ ہورہا تھا۔ وہ ایک موڑ مڑ کے جیسے ہی مین روڈ پہ آئی سامنے ہی جلوس موجود تھا۔ عزادار سڑک کے کنارے کھڑے سینہ کوبی اور گریہ کر رہے تھے۔ اتنے زیادہ لوگ ہونے کے باوجود اتنی ویرانی اور وحشت طاری تھی جیسے دل ابھی پھٹ جائے گا۔ آہ و بکا کی آوازیں جیسی روح کو چیر رہی تھیں۔ تاحد نگاہ کاندھوں پہ جنازے ہی جنازے تھے۔

اس کی آنکھوں سے خود بہ خود آنسو بہنے لگے۔ امامِ مظلوم کی شہادت یاد آئی تو یوں لگا جیسے سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہو۔ اسے لگا وہ غش کھا کے گر جائے گی۔ غم کی اتنی شدت کے باوجود اسے یہ سمجھ نہیں آیا کہ جنازے اتنے زیادہ کیوں ہیں۔ یا تو 4 سے پانچ ہوتے ہیں یا بہتر 72 ہوتے ہیں۔ مگر یہ جنازے تو شاید ہزاروں میں تھے۔ ویسے تو جلوسوں میں ضریح مبارک کی شبیہہ بنائی جاتی تھی یا جنازے کی۔ یہ بھی جنازے ہی تھے مگر شبیہہ ہرگز نہیں لگ رہے تھے۔

وہ کفن جنہیں سفید ہونا چاہیے تھا وہ خون سے تر تھے۔ جنازوں کے ساتھ ساتھ چلنے والے یوں بے حال تھے جیسے ان کے کسی عزیز کا جنازہ ہو۔ جنازے اٹھانے والے بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ جنازے جہاں جہاں سے گزرتے وہاں والوں کا گریہ مزید بلند ہوجاتا۔ کچھ عزادار غش کھا کے گرے بھی۔ مگر سب کی توجہ جنازوں پہ تھی گرنے والوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا تھا۔ صرف مومنہ تھی جو سب دیکھ رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا وہ یہاں ہوکے بھی اس منظر کا حصہ نہیں۔

کیوں کہ جو اسے عجیب اور نیا لگ رہا تھا وہ شاید کسی اور کو بالکل محسوس نہیں ہورہا تھا۔ بہت سے لوگ گریہ کے ساتھ ساتھ بلند آواز کربلا و شام کے مصائب بیان کرتے جارہے تھے۔ کسی کسی جملے پہ گریہ و ماتم مزید شدت اختیار کرلیتا۔ کئی عزاداروں کے سینوں سے خون جاری ہوچکا تھا۔ جلوس اب رک چکا تھا۔ سارے جنازے سڑک پہ نیچے رکھے جانے لگے۔ جب سب جنازے رکھے جاچکے تو ان پہ سے چادر ہٹائی جانے لگیں جیسے مردے کا آخری دیدار کروایا جاتا ہے۔

مومنہ جو دیکھ رہی تھی وہ اس کے لیے نا قابلِ یقین تھا۔ گہواروں میں واقعی میتیں موجود تھیں۔ اس نے ذرا آگے بڑھ کے اپنے سامنے رکھے جنازوں کی شکلیں دیکھنے کی کوشش کی۔ کچھ گہواروں میں پوری میت ہونے کی بجائے کٹے پھٹے انسانی اعضاء رکھے تھے۔ ایک گہوارے میں ایک صحت مند نوجوان کی لاش رکھی تھی جس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھیں۔ کچھ فاصلے پہ ایک ہی گہوارے میں دو جلی ہوئی لاشیں رکھی تھیں جس پہ ایک صلیب رکھی تھی۔

بہت سے گہواروں میں خون سے لتھڑے اسکول کے بستے رکھے تھے۔ ایک گہوارے میں ایک لڑکی کی لاش تھی جس کے گلے میں رومال کا پھندہ نظر آرہا تھا۔ اسے یہ شکل بہت جانی پہچانی لگی۔ اگلے چند جنازے کم عمر بچوں کے تھے جن میں سب سے نمایاں سیاہ اور سرخ لباس والی بچی کی لاش تھی۔ بہت سے جنازوں پہ سے چادر نہیں ہٹائی گئی تھی ان میں سے ہی ایک جنازے کی ایک طرف سے ایک ننھا سا ہاتھ نظر آرہا تھا جسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ڈھانچے پہ کھال چڑھا دی ہو اور مرنے والا شدید قحط کا شکار رہا ہو۔

دیکھتے دیکھتے اس کی نظر سب سے پہلے جنازے پہ گئی جو جلوس میں سب سے آگے تھا مگر اس سے کافی دور تھا۔ اس جنازے میں کون تھا وہ اسے نظر نہیں آیا بس ساتھ کھڑا ایک بچہ اور دو بچیاں نظر آئے جن کے لباس پہ خون لگا تھا اور سب سے چھوٹی بچی کے ہاتھ میں دودھ کی بوتل تھی۔ اتنی دیر میں سارے جنازے دوبارہ کاندھوں پہ اٹھا لیے گئے اور جیسے چشم زدن میں جلوس آگے بڑھ گیا۔ جلوس کے آگے بڑھتے ہی سب عزاداروں نے آنسو پونچھے، غش میں پڑے عزادار اٹھ کھڑے ہوئے اور سب ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima