ووٹ کی قیمت اور طبقاتی سماج


جوں ہی الیکشن قریب آتے ہیں تو مختلف امیدواران اپنے شہری نمائندوں کے ساتھ قریہ قریہ وؤٹ مانگنے کے لئے جلسے اور جلوسوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے دوڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہمراہ اکثر مقامی نمائندوں کی ٹیم ہوتی ہے۔ جو طبقاتی اور منقسم معاشرے میں نچلے طبقے کے لئے، جس میں مزدور اور دھاڑی پہ رہنے والے یا بے روزگاروں لوگ ہوتے ہیں، منہ میں شرینی لئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ امیدواران کو ووٹ کے دوران اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میرے حلقے کی اکثریت انھی مفلوک الحال لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ الیکٹ ہونے کے بعد یہ خیال گدھے کے سینگ کی طرح اس کے سر سے گم ہو جاتے ہیں۔

جو لوگ بیزاری سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ”ہم کیوں ووٹ دیں؟ ہمیں ووٹ سے کیا ملا ہے یا ملے گا؟ ہماری ووٹ سے کیا فرق پڑے گا؟ یہی لوگ ووٹ کے دوران سب سے پہلے زیادہ پرجوش، جذبے اور سچائی سے اپنے امیدوار کو کامیاب کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کیوں؟ جان بوجھ کر اس امیدوار کو ووٹ سے نوازنا کہ جس کی بے وفائی کا پہلے سے پتہ ہو اور پھر بھی وفا کا دم بھرنا؟

کیا غریبوں کی غربت چند ہی دنوں میں ختم ہوگئی؟ کیا بے روزگار برسرِ روزگار ہوگئے؟

بالکل نہیں۔ بلکہ امیدواران کو جتوانے والا مراعات یافتہ اور تنخواہ دار طبقے کی ایک ٹیم ہوتی ہے جن کے مقامی لوگوں سے معاشرتی رابطے ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر اکثریت میں رہنے والے غریب عوام ان کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ نامزد امیدوار کو نہیں بلکہ اکثر اس تنخواہ دار طبقے سے مجبور ہو کر ووٹ اس کو دیتے ہیں۔ جس سے تنخواہ دار طبقہ اس امیدوار سے سفارشی بنیادوں پر اعلٰی پوسٹس اور مراعات کا مطالبہ کرتا ہے۔ جو بے کم و کاست اسے ملتی ہیں اور وہ امیدوار بھی اسمبلی پہنچ کر ترقیاتی فنڈز، زمینوں اور کک بیکس کی صورت میں اپنا تمام حساب برابر کرتا ہے۔

نتیجاتاً ایک طرف تنخواہ دار طبقہ مزید مضبوظ اور طاقت ور حثییت کے ساتھ معاشرے میں رہتا ہے اور مزید شاخیں پھیلا کر اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے تو دوسری طرف مذکورہ امیدوار اپنا بینک بیلنس اور سیاسی اسٹیٹس۔

عوام کے لئے رہ جاتے ہیں فقط دعوے اور پچھتاوے جو اگلے پانچ سال آنے سے پہلے مٹ جاتے ہیں کیونکہ مفلوک الحال طبقے کے لئے اور بھی غم ہیں زمانے میں پچھتاوے کے سوا۔

ان میں سے کئی حالات کی بے رحمی کو فقط اِن اللہ مع الصابرین کی تفسیر میں مسکرا کر سبیل جنت خیال کرتے ہیں۔ تو کئی حالات کے پریشر کوککر میں قاتل، چور، اور نشہ کے عادی بن جاتے ہیں۔

اخباروں کی زینت بننے والا ہر خودکشی کرنے والا جمن، ہر کرائے کا قاتل جبران، ہر گینگ کا سرغنہ سُدھیر بھائی، ہر زہر پینے والی رضیہ، ہر وکیل، ڈاکٹر بیوروکریٹ کے گھر میں تشدد سے لال لہو میں رنگنے والی ننھی ماہ نور، ہر کچے پُل کے نیچے آنے والا شہروز اپنے یا اپنے کسی بڑے کی دی گئے ووٹ کا قیمت دے رہا ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف انھی کو قابو میں رکھنے کے لئے قانون پہ قانون بنایا جاتا ہے۔

تو بات سیدھی سی ہے الیکشن پسماندہ معاشرے میں تنخواہ دار و مراعات یافتہ طبقے کے لئے ایک موقع ہوتا ہے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کے لئے۔ اس امیدوار کے لئے اپنی کمپنیاں اور کاروبار وسعت دینے کے لئے یا جاگیریں مضبوط کرنے کے لئے۔

غریب جو اس سارے عمل میں موثر ترین عامل ہوتا ہے۔ لیکن الیکشن ہمیشہ اس کے لئے غیر موثر ہوتے ہیں۔ اس کے لئے جمہوریت، آمریت و نظام شریعت سب ڈھاک کے تین پات ہوتے ہیں، بلکہ موخر الذکر دونوں قدرے بہتر ہوتے ہیں۔

اس پورے بکھرے ہوئے سماجی ڈھانچے میں ریاست کا ہر پرزہ بکھرا ہوا ہے۔ جسے مضبوط کرنے کے لئے انصاف کے ساتھ ساتھ استحصال زدہ اسی طبقے کو اٹھانا ہوگا جو عصر قریب میں ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن نا امیدی بھی کفر ہے تو ہم امید ہی کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).