کولیٹرل ڈیمیج یا ناحق خون


2009 کے اواخر کی بات ہے۔ میں بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی میں بحیثیت لیکچرر ملازمت کر رہا تھا۔ شادی کو دو سال ہوئے تھے۔ ایک دن قریب نو بجے رات میں۔ اپنی مسز کے ساتھ چھ نمبر سے واپس یونیورسٹی آرہا تھا۔ ان دنوں ہماری رہائش یونیورسٹی کی طرف سے دیے گئے سرکاری گھر ای۔ فائیو میں تھی۔

راستے میں اچانک سے ایک پولیس وین جو شاید پٹرولنگ ڈیوٹی پر تھی، کراس کر کے ہمارے سامنے آئی اور مجھے موٹر سائیکل کو خطرناک طریقے سے روکنا پڑا۔ ہزاروں طرح کے خدشوں سے دل دھڑکنے لگا۔ پولیس کا ایک سپاہی مجھے ایک طرف اور دوسرا میری مسز کو دوسری طرف لے گیا۔ خدا جانتا ہے کہ ان کے لہجے میں کتنی بدتمیزی۔ اور نفرت تھی۔

بہر کیف انہوں نے مجھ سے پہلے میرا نام۔ پھر ساتھ موجود خاتون (میری بیوی) کا نام اس کی والدہ کا نام۔ رشتہ اور کئی ایک سوالات کیے۔ میں جواب دیتا گیا۔ لیکن میری توجہ اپنی بیوی کی طرف ہی رہی۔ کہ کہیں وہ پریشان نہ ہو جائے۔ اس سے بھی کئی ایک سوالات کیے گئے۔ اور بعد میں شاید ان جوابات کو آپس میں ملا کر دیکھا گیا۔ اس دوران میں نے نکاح نامے کا کاپی (جو میں ہمیشہ بٹوے میں رکھتا تھا۔ سمیت شناختی کارڈ کاپیاں ) نکالی اور یونیورسٹی ایمپلائیمنٹ کارڈ کے ساتھ ان سپاہیوں کے سامنے رکھ دی۔ تفتیش کی تقریبا موت واقع ہو چکی تو وہ کھسیانہ لہجے پر اتر آئے اور مجھے گاڑی میں بیٹھے افسر کے پاس لے گئے۔ اور میاں طوطے کی طرح  تعارف کروا دیا۔ میری سانسیں نسبتا بحال ہو چکی تھیں۔ بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ ہوئے وہ حضرت بولے۔

سر آپ کہاں اس وقت! یہ علاقہ (بوسن روڈ) چوروں کا ہے۔ شام میں دیر سے نہ نکلا کریں۔ اور تکلیف پر معذرت۔

بس اتنا ہی۔ پولیس کے سپاہی واپس وین میں بیٹھ کر چلے گئے۔ ہم دونوں بمشکل کریانہ کہ دکان تک گئے۔ سپرائٹ کی بوتل پی۔ سنبھلے تو بائیک پر بیٹھ کر گھر پہنچے۔ کافی دن تک اس واقعے کی شرمساری اور دہشت ہمارے دلوں کو خراب کرتی رہی۔

خدا جانتا ہے۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک جب بھی بوسن روڈ سے گزرتا ہوں تو وہاں کے چوروں کا نہیں۔ پولیس کا خوف دل میں آجاتا ہے۔ اور دل کرتا ہے کہ کاش اس دن میں اس پولیس افسر کا گریبان پکڑ کر اسے کہتا۔ کہ اگر یہی طریقہ ہے عوام کی حفاظت اور تمہاری تفتیش کا۔ تو ہمیں مجرموں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دو۔ مجرم تو ایک آدھ کی عزت جان مال خراب کرتے ہیں۔ تم نے تو ناکہ در ناکہ۔ تھانہ در تھانہ بدتمیزی کی کہانیاں رقم کر رکھی ہیں۔

ابا جی کہا کرتے تھے۔ بیٹا دیکھنا۔ زندگی میں کسی کی سزا جزا کا فیصلہ ہاتھ میں ہو تو دھیان رکھنا۔ کوئی مجرم سزا سے بچ جائے تو یہ چھوٹا جرم ہے۔ مگر کوئی بے جرم تمہارے ہاتھوں سزا نہ پائے۔ اس سے بڑی ہلاکت کوئی نئیں۔

سنا ہے کل سے پولیس کے ساتھ کچھ اور ادارے بھی اس صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ جو کولیٹرل ڈیمیج کے نام پر ہلاکت کی گولیاں نگل لیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد عبدالباسط
Latest posts by ڈاکٹر محمد عبدالباسط (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).