جنازے فیصلہ نہیں کرتے


\"inam-rana-3\"کوئی جائے اور جا کر ان عالی دماغوں کو سمجھائے، جنازے ہائی جیک نہیں کیا کرتے، ایک عوامی شخص کا تو بالکل بھی نہیں۔

گئی شب دل اداس تھا اور اک بے کلی تھی کہ طاری تھی۔ عزیزی بلال نے سمجھا کہ دیسی مرغی نہ ملنے کے سبب یہ حالت ہے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ کس طوفان کا سامنا ہے۔ ایدھی نہ رہا، ہائے وہ ایدھی بھی نہ رہا۔ کتاب کہتی ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی، پوری انسانیت کو بچا لیا؛ اور وہ شخص تو تمام عمر جانیں ہی بچاتا رہا۔ خواہ وہ جانیں ان بچوں ہی کی کیوں نہ تھیں کہ جنکو ناجائز کہ کر مفتی زرولی نے اس فرشتہ صفت پر انگلیاں اٹھائیں اور اپنے چندے کا غصہ اتارا۔ الحذر الحذر، انسان کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ اور ایک یہ سوشل میڈیا ہے، کاتا اور لے دوڑی۔ ابھی اس درویش کو خاک بھی نہ دی گئی تھی کہ یہ اسکی جنت دوزخ کے فیصلے کرنے لگے۔ خدا کے بندوں خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے اور نہ ہی خدا تمھاری فیس بک بحثوں کا پابند، وہ تو مالک یوم الدین ہے، انسان کا رب۔ وہی انسان جس کے بارے میں کہا کہ کتنے زمانے تھے کہ انسان کوئی قابل ذکر شے ہی نہ تھا۔ اور آج وہی انسان خود خدا بن کر دوسروں کی مغفرت کے فیصلے کرتا ہے۔ حد ہے، ژولیدہ فکری کی حد ہے۔

مگر کرب کا باعث یہ سب نہ تھا۔ جنازے کی تصاویر دیکھیں۔ سپہ سالار نے ایک درخشاں روایت قائم کی کہ ایدھی کو رخصت کرنے خود پہنچے۔ مگر یہ سیاستدانوں کو کیا ہوا؟ ممنون حسین یوں ہنسے جیسے دہی بھلوں کی دوکاں پہ کھڑے ہوں۔ اور عوام؟ دیکھا تو دل دہل گیا کہ دو ہزار لوگ بھی شاید ہی ہوں۔ اہل کراچی کو کیا ہوا؟ کیوں وہ اپنے محسن، اپنے بیٹے کی تکریم میں ناکام رہے۔ ارے اس سے زیادہ لوگ تو میری پکائی ہوئی دیسی مرغی کھانے کو آ جائیں۔ اور چلو اہل کراچی تو سست نکلے، یہ باقی کا پاکستان کہاں گیا؟ ممتاز قادری کے جنازے پر ملک بھر سے اکٹھا ہونے والو کیا کراچی کچھ دور تھا؟ یا ایدھی سنٹر اور بابائے خدمت کی خدمات فقط کراچی تک محدود تھیں۔ اے اہل پنجاب و پختونخواہ، افسوس تمکو تولا گیا اور تم ہلکے نکلے۔ کچھ لوگوں کو فیس بک پہ سیکیورٹی کا عذر تراشتے دیکھا، مگر کتنے تھے جو سارا وقت فیس بک پہ بیٹھے ایدھی کے ایمان کی بحث میں ہی مشغول رہے۔ کوئی جائے اور سمجھائے کہ ایدھی کے ایمان کو رعایت اللہ اور حافظ صفوان کی گواہیوں کی ضرورت نہیں۔ اسکی تو زندگی، سادگی اور خدمت ہی کافی ہے اسکے ایمان کا فیصلہ کرنے کو۔

جی اور گھبرایا تو جنرل کے گھر پہنچا۔ وہ عظیم شخص کہ خاموشی جس کا زیور ہے۔ جو امریکیوں کے ہر سوال کے جواب میں خاموش رہا۔ تاآنکہ کہ امریکیوں نے خود ہی اپنے سوال کا جواب ایبٹ آباد میں دے دیا۔ جو چاہتا تو بولتا اور اربوں میں کھیلتا، مگر خاموش رہا۔ مگر آج وہ بھی بے چین تھا۔ سکریٹ سے سگریٹ لگاتا وہ بولا، یہ باقی تو تھے ہی برے، تمھارے کپتان کو کیا ہوا۔ کیا لندن پہ عذاب آ جانا تھا یا جہانگیرترین کے جہاز میں پیٹرول ختم ہو جاتا۔ آخر کیوں وہ دو گھنٹے کی تاخیر سے لندن نہ گیا۔ کیوں جنازہ نہ پڑھا۔ کیا ہر وہ شخص جو اسکے ساتھ احسان کرے یہ اسکی بے قدری ہی کرے گا؟ میری آنکھیں بھر آئیں کہ جنرل کے دل میں آج بھی قوم کا درد موجزن ہے۔ کہا کیا کہیے۔ عمران کو کہا تھا محتاط رہو، مشیروں کے انتخاب میں محتاط رہو۔ مگر وہ تو صداقت عباسیوں، علیم خانوں اور جہانگیر ترینوں کے ہاتھ چڑھا ہے۔ ایسے میں کیا امید رکھی جائے۔ کتاب کہتی ہے جو زندہ رہا دلیل سے رہا اور جو مرا دلیل سے مرا، افسوس کپتان نے دلیل کھو دی ہے۔ وہ چڑچڑاتی بڑھیا، آگ اگلتا ابو علیحہ، آبدیدہ رؤف اور شرارت پہ آمادہ ثاقب ملک کیا کافی نہ تھے کہ آج جنرل نے بھی کپتان کا طعنہ دے مارا۔

طبیعت کا اضطراب بڑھا تو عارف کے در پہ پہنچا۔ وہ شخص کہ جو برے سے برے حالات میں پرسکون رہتا ہے۔ کتاب کہتی ہے کہ ایسے لوگ نہ خوفزدہ ہوتے ہیں نا غم زدہ۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا، کب تک، آخر کب تک اس قوم کی بدنصیبی جاری رہے گی؟ یہ قوم قائد کے بعد اب تک سب سے بڑے پاکستانی کو بھی شایان شان الوداع نہ کہہ سکی۔ عارف نے گولڈ لیف کا لمبا کش کھینچا اور موبائل میری طرف بڑھا دیا۔ سوچا کوئی نیا کلپ آیا ہے شاید۔ مگر عارف کے کسی دوست محمد تقی احمد کا میسج تھا کہ \” میں اور میرا دوست جب غریب آباد پہنچے تو وہاں سے بند کیا ہوا تھا رینجرز اور پولیس نے۔ ہم وہاں سے بھنگوریہ گوٹھ میں سے ہوتے ہوئے عزیزآباد اور وہاں سے گلشن اقبال 13 D سے ہوتے ہوئے حسن اسکوائر کے پل کے قریب پہنچے تو وہاں سخت سرزنش اور گھوریاں ملیں رینجرز والوں کی۔پھر بھی ان سے درخواست کی کہ ہمیں جنازے میں لازمی شرکت کرنی ہے تو پندرہ بیس منٹ وہاں کھڑا کرکے اور تلاشی لیکر جانے کی اجازت دی ۔۔پل سے اتر کر ایکسپو سینٹر میں بائیک پارک کروائی گئی اور وہاں سے پیدل نیشنل اسٹیڈیم جانے کا حکم ۔ پیدل چلتے ہوئے فضا میں چکراتے ہیلی کاپٹرز دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کوئی جنگی قسم کا ماحول ہے آس پاس الرٹ رینجرز کے جوان ۔اسٹیڈیم کے گیٹ پر پہنچے تو قطاریں لگی تھیں اور شناختی کارڈ چیک کر رہے تھے ۔اسٹیڈیم میں داخل ہوئے تو مایوسی سی ہوئی کہ ہر طرف فورسز کے جوان اور سچ میں عوام کی بہت کم تعداد۔ وجہ یہ ہی ماحول اور حالات\”۔

کاش کوئی مجھ جیسا مشیر موجودہ سپہ سالار کو بھی میسر ہوتا تو سمجھاتا کہ عوام کے ہیرو کا جنازہ بھی عوامی ہونا چاہیے۔ کس بزرجمہر نے مشورہ دیا تھا کہ شہر سے دور جنازہ کیا جائے اور ساڑھے گیارہ کے بعد انٹری بند۔ کیا کوئی میچ ہونا تھا؟ یقینا عسکری قیادت کی سلامی قابل تحسین اور ان کی حفاظت ضروری تھی۔ مگر ایک درویش کے جنازے کو یوں شاہی کرنے کی کیا ضرورت۔ کیا اچھا نہ ہوتا کہ ایک شاہی جنازہ صبح تمام عسکری قیادت کے ساتھ چھاؤنی میں پڑھ لیا جاتا اور پھر کراچی کو اسکا بیٹا لوٹا دیا جاتا۔ فلک دیکھتا کہ اہل کراچی اپنے محسن کو کس شان سے رخصت کرتے۔ شاید تاریخ پاکستان کا ایک بڑا ترین جنازہ ہوتا۔ عوام کا محسن اگر عوام خود رخصت کرتے تو شاید مرحوم کی روح کو زیادہ سکون آتا۔ جو ہوا سو ہوا، کیا عسکری اور سول قیادت کو نہ چاہیے کہ ایدھی کی کسی ایک خدمت کو ریاست اپنا لے۔ کوئی جھولا گھر، کوئی جائے امان، کوئی ایمبولنس سروس؛ کچھ ہو کہ جو ایدھی کی طرح ریاست کرے۔ یقینا یہ بابائے خدمت کو ٹکٹ جاری کرنے یا سٹیڈیم نام لگانے سے بڑا خراج تحسین ہو گا۔

اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے جنازے فیصلہ کرتے ہیں۔ کوئی جائے اور جا کر ان عالی دماغوں کو بھی بتائے کہ جنازے ہمیشہ ہی فیصلہ نہی کرتے، بالخصوص اگر جنازے ہائی جیک ہو جائیں۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments