کشمیر پھر بھڑک اٹھا


\"irshad

برہان مظفر وانی کو لحد میں اتارنے پورا کشمیر امنڈ آیا۔ سرکار نے ہجوم کو روکنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ کرفیو نافذ کر کے شہریوں کو گھروں میں محصور کیا گیا۔ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی۔ ٹرانسپورٹ بند کردی گئی۔ اس کے باوجود کشمیر کی تاریخ کا بے مثال جنازہ دیکھ کر مبصرین ششدرہ رہ گئے۔ دعا کےلیے فضا میں بلند ہوئے ہاتھ تھے کہ شمار نہیں کیے جاسکتے تھے، بھیگی آنکھیں، دعائیہ نغمہ گاتی عورتیں، قطار اندر قطار کھڑے برہان وانی کی آخری جھلک دیکھنے کو بے تاب پیروجواں کشمیریوں کے غم اور الم کی داستان کہہ رہے تھے۔

21 سالہ برہان کی شہادت پر ابھرنے والا ردعمل غیر متوقع نہ تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے کشمیریوں کی نئی نسل نے آزادی کا علم اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔ اس کا پہلا اظہار 2008 اور2010میں ہوا۔ لاکھوں لوگوں نے آزادی کے حق میں جلسے جلوس اور مظاہرے کیے۔ بعض جلسوں میں پانچ پانچ لاکھ لوگ شریک ہوئے۔ کشمیر کے فعال طبقات میں سےکچھ عناصر کا خیال تھا کہ پرامن سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کی جائے تو دنیا متوجہ ہوگی اور دہلی بھی لچک دار رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگا۔ افسوس! نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بھارت کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی۔ عالمی ضمیر بیدار ہوا اور نہ ہی اسے ہونا تھا، حتٰی کہ پاکستانی رائے عامہ نے بھی چپ سادھ لی۔

\"burhan4\"

پرامن مزاحمتی تحریک دب گئی تو دہلی پر کامیابی اور فتح کی سرشاری کی کیفیت طاری ہوگئی۔ مذاکرات کا ہر باب مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ خاص طور پر بھارتیہ جنتاپارٹی نے مسئلہ کشمیر کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے سرے سے ہی انکار کردیا۔ ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں سمونے کی حکمت عملی پر کار فرما بی جے پی جموں و کشمیر کا بچا کچھا تشخص بھی ختم کرنے کے درپے ہوگئی۔ ریاست میں غیر کشمیری باشندوں کی لمبی مدت کے لیے آباد کاری اور بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمہ کے اعلان جیسے اقدامات نے کشمیریوں میں موجود احساس عدم تحفظ کوگہرا کیا۔

2010 تک کشمیر میں عسکری تحریک بہت کمزور بلکہ تحلیل ہوچکی تھی۔ مقامی نوجوان تعلیم اور سیاست کی راغب تھے۔ انہیں امید تھی کہ مکالمے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکل آئے گا لیکن فورسز اور انتظامیہ نے پرامن احتجاجی تحریک کو کچلنے کی خاطر ظلم کا ہر حربہ آزمایا۔ 120 نوجوانوں کو شہید کردیا گیا۔ سینکڑوں کو جیل یاترا کرائی گئی جہاں انہیں دو دو سال کی قید سنائی گئی۔ عمر عبداللہ بطور وزیراعلٰی کے چیختے چلاتے رہے کہ کالے قوانین ختم نہیں کرتے ہو تو کم ازکم انہیں نرم دو لیکن دلی نے ان کی فریاد سنی ان سنی کردی۔ سید علی گیلانی پر کی جانے والی سختی کی کچھ سمجھ آتی ہے لیکن میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک جنہوں نے پاک بھارت مذاکرات اور پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت کی تھی، ان کی بھی سفری دستاویزات ضبط کرلی گئی۔ دہلی میں ان کا چلنا پھرنا اور سفارت کاروں سے ملنا محال بنادیا گیا۔ وہ جہاں جاتے شیوشینا کے کارکن ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں یا جلسے کا جواب جلسے سے دینے کے بجائے مخالف سیاستدانوں کو گھروں میں نظر بند رکھا جانے لگا۔ چنانچہ کشمیری سیاستدانوں سے لے کر عام شہری تک ہر ایک نا صرف یہ کہ مایوس ہوا بلکہ اس کے اندر ردعمل کا لاوا پکنے لگا۔

\"kashmir2\"

اس پس منظر میں کشمیریوں کے اندر بالخصوص جنوبی کشمیر کےنوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے دھیرے دھیرے عسکری تنظیموں کا رخ کیا۔ یہ نوجواں نوے کی دہائی میں عسکریت کا حصہ بننے والے جنگجوؤں کے برعکس جدید تعلیم یافتہ اورمتمول طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ سینئر صحافی مزمل جلیل نے گزشتہ ہفتے انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا: موجودہ جنگجوؤں میں سے اکثر نے ہتھیاروں یا عسکری تربیت کے لیے لائن آف کنٹرول عبورکر کے پاکستان کا رخ نہیں گیا۔ انہیں مقامی سطح پر تربیت دی گئی ہے۔

برہان وانی کا اپنا پس منظر بھی بڑا دلچسپ ہے۔ وہ ایک سرکاری سیکنڈری سکول کے پرنسپل کا فرزند تھا۔ والدہ اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ ایک خوشحال اور پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب فورسز کے ہاتھوں بار بار تشدد کا شکار ہونے لگا تو مزاحمت کاروں کے قافلے میں شامل ہو گیا۔ اس نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کشمیری نوجوان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کے ویڈیو پیغامات کو کشمیر کے طول وعرض میں دیکھااور سنا جاتا۔ وہ بندوق لہرا لہرا کر سیلفیاں بناتا اور نوجوانوں کو ترغیب دیتا کہ معرکہ آرائی کے لیے تیار ہوجاؤ۔ کشمیر کا کوئی گھر ایسے نہیں جہاں اس کی تصویر یا ویڈیو نہ دیکھی گئی ہو۔ حتٰی کہ وہ ہر گھرانے کی شام کی گفتگو کا محور بن گیا۔ عسکریت کو اس نے اس قدر رومانٹیسائز کیاکہ اسے پوسٹر بوائے کہا جانے لگا۔

\"11kashmir2-master675\"

برہان وانی نے کشمیری نوجوانوں کو ایک عرصہ بعد دوبارہ عسکریت کی مائل کیا۔ 1994 کے بعد مزاحمتی تحریک حرکت المجاہدین، لشکر طیبہ اور البدر کی طرح کی تنظیموں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی جو خالصتاً پاکستانی مذہبی جماعتوں کی شاخیں تھیں اور انہی کے ایجنڈے پر کام کرتیں تھیں۔ چنانچہ عسکری تحریک کی شںاخت ہی بدل گئی اور اس کا مقامی رنگ غائب ہوگیا جو نوے کے اوئل میں اس کی شناخت تھا۔ اب برہان وانی اور ان کے ساتھیوں نے ایک بار پھر کشمیری نوجوانوں کی ایک معقول تعداد کو عسکری تنظیموں کا حصہ بنایا لیکن ان پر پاکستان سے مدد حاصل کرنے یا کنٹرول لائن عبور کر کے پاکستان جا کر آئی ایس آئی سے عسکری تربیت حاصل کرنےکا الزام نہیں ہے۔

یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ اب کشمیر میں عسکریت کے موجودہ ابھار میں شدت آئے گی یا پھر یہ تحریک ایک بار پھر دب جائے گی لیکن ایک بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگلے چند سالوں تک کشمیر میں تشدد کی موجودہ لہر برقراررہے گی۔ بھارتی حکومت کسی بھی قسم کے مذاکراتی عمل کی روادار نہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بظاہر ٹھہراؤ نظرآتا ہے لیکن تلخی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ افغانستان میں دونوں ممالک کے درمیان اب مسابقت نہیں بلکہ معاملہ ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور گرانے تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان کی مقتدر قوتوں کے لیے بھی یہ ایک موقع ہے کہ بھارت کو کشمیر میں ناکوں چنے چبوائیں جہاں وہ اپنی غلطیوں اور خاص کر بے جا تکبر کی وجہ سے پھنس چکا ہے۔

\"11kashmir1-master768\"محبوبہ مفتی کی حکومت کی مقبولیت اور ساکھ مسلسل گر رہی ہے۔ شہری اس کی پالیسیوں سے نا خوش ہیں اور بی جے پی اسے کامیاب دیکھنا چاہتی نہیں۔ جنوبی کشمیر، جس نے محبوبہ مفتی کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا، وہاں کے لوگوں نے برہان وانی کے جنازے کے شرکاء کو مفت شربت، چائے اور پانی پیش کیا۔

آبادی میں نوجوانوں، بالخصوص تعلیم یافتہ اور بے روزگار نوجوانوں، کی شرح بہت زیادہ ہے جن کی سیاسی امنگیں اور عزائم پہلی نسل کے برعکس بہت زیادہ طاقت ور ہیں۔ ان نوجوانوں کو لالی پاپ دے کر موجودہ نظام کے اندر رکھنا اور مطمئن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ جس خطے میں چھ لاکھ سیکورٹی فورسز کے جوان ہر چورایے پہ شہریوں کا تعاقب کرتے ہوں، چار جانب قبضہ محسوس ہوتا ہو اور بھارتی سرکار ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے پر بضد ہو وہاں نوجوانوں کو شدت پسندی اور مزاحمت کاری سے باز رکھنا ناممکن نظر آتا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں پہلی بار کشمیریوں نے اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور فورسز نے ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق بیس کے لگ بھگ نوجوانوں کو شہید کردیا ہےجس سے فورسز اور بھارتی سیاسی قیادت کے موڈ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جلدی جھکنے والے نہیں۔ چند دن پہلے بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ نے کہا تھا کہ ہم پاکستانی فورسز پر حملے میں پہل نہیں کریں گے لیکن جب جواب دیں گے تو پھر بندوق کی گولیاں شمار نہیں کریں گے۔ اس ماحول میں مکالمے اور بات چیت کی منادی کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔

افسوس اس امر کا ہےکہ کشمیر کا نوجوان گاجر مولی کی طرح کٹ رہا ہے لیکن عالمی ضمیر اورمیڈیا لمبی تان کر سو رہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اظہار تشویش تو کیا لیکن یہ کافی نہیں پاکستان کو پس منظر میں رہ کر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ تاہم حکومت پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیریوں کو اپنی تحریک خود چلانے دینا بہتر ہے۔ اسلام آباد اس کی ڈرائیونگ سیٹ نہ سنبھالے۔ اسے بھارت اور پاکستان کے مابین کا کوئی مسئلہ نہ بنایا جائے۔ خاص طور پر جماعت الدعوِة جیسی تنظیموں کو کشمیر سے دور رکھا جائے۔ یہی کشمیریوں کے مفاد میں ہے ورنہ ہمدردی کی جو تھوڑی بہت لہر اٹھ رہی ہے وہ بھی دم توڑ جائے گی۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments