خون کی خوشبو سے زندہ ہونے والے


مورخ لکھے گا (اگر مورخ کا شمار اس زمانے کے لاپتہ افراد میں نہ ہوا یا پھر مورخ کسی ارتقائی عمل سے گزرنے کے تحت مستقل بنیادوں پر گونگا، بہرا اور اندھا نہ ہوا) کہ دنیا میں کئی قومیں ایسی گزری ہیں جو کافی عجیب و غریب تھیں۔ کسی ان دیکھے دیوتا کو کنوارے جسم کی بلی دے کر جان بخشی کروانے والی قوم سے لے کر جدید دنیا میں خود قیامت کا دن متعین کر کے سالوں پہلے سے اس کے آنے کر تیاری شروع کر دینے والی قوم تک۔

انسانی ذہن اتنا ہی پیچیدہ ہے جو سائنس کی بے تحاشا ترقی کے باوجود آج تک مکمل طور پر تسخیر نہیں کیا جاسکا۔ روز ایک نئی جہت اور روز ایک نیا وبال کھڑا کرتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ روئے زمین پر ہے بھی اربوں کی تعداد میں۔ اب صورتحال یہ کہ جتنے اذہان اتنی ہی کارستانیاں۔

تو آج سے کئی سالوں بعد مورخ جب تحقیق کرے گا تو اس کا تعارف ایک ایسی قوم سے ہوگا جو اپنی طرز میں نہایت مختلف اور انوکھی تھی۔ اس قوم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مردے بسا کرتے تھے۔ اب عام طور پر مردہ کہ معنی تو یہ مانے جاتے ہیں کہ وہ بے جان ہوتے ہیں اور ان میں حرکت نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی مگر ان مردوں کی انفرادیت یہ تھی کہ ان کے اندر حرارت بھی تھی اور حرکت بھی۔ ہے نا حیرت انگیز بات؟ مورخ بھی دنگ رہ جائے گا جب وہ یہ دریافت کرے گا کہ یہ مردے غذا بھی کھاتے تھے، بے تکا ہی سہی مگر بولتے بھی تھے اور اپنے مطلب کی بات سننے اور سمجھنے کی طاقت بھی رکھتے تھے، سوتے اور جاگتے بھی تھے اور افزائش نسل کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ یا شاید یہی ایک صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ ان کو اس زمانے کا ایک قسم کا روبوٹ بھی کہہ سکتے ہیں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک تھا مگر ان کی ایک عجوبہ خاصیت جو مورخ کو ششدر کر دے گی کہ وہ قوم جو عام حالت میں مردہ رہتی ہے اس کو ایک قسم کے نشے کی شدید لت تھی۔

اگر آپ ان کو انسان کے خون کی خوشبو سنگھا دیں تو وہ وقتی طور پر زندہ حالت میں نا صرف واپس آ جاتی تھی بلکہ ایسا زندہ ہوتی کہ پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیتی اور زندہ انسانوں والی حرکات و سکنات عام انسانوں سے دس گنا زیادہ کرنے لگتی۔ معلوم نہیں خون کی خوشبو ان کے اندر کون سا ایسا جادو کر دیتی کہ ان کے جسموں میں انگارہ بھر جاتا۔ وہ لوگ سوچنے بھی لگتے اور سمجھنے بھی، احساس نامی شعلہ ان کے اندر بھڑکنے لگتا، ان کو یکایک دوسروں کا درد محسوس ہونا شروع ہو جاتا، صحیح غلط میں فرق معلوم ہونا شروع ہو جاتا، سچ جھوٹ کی تمیز ہونے لگتی یہاں تک کہ انصاف کا بھوت چڑھنا شروع ہو جاتا مختصر یہ کہ زندہ انسانوں والی تمام حرکات و سکنات ان کے اندر نمودار ہونا شروع ہو جاتیں۔

ایک دوسرے سے وعدے وعید کرتے، غم بانٹتے، تسلیاں دیتے، نئی صبح کی نوید سناتے اور زندہ ہونے کی اہمیت کا ادراک ہونے لگتا ان کو مگر چونکہ ہم سب کے علم میں ہے کہ نشہ چاہے جتنا بھی مہنگا ہو اس کا اثر ایک محدود حد تک قائم رہتا ہے تو اس انسانی خون نامی مخصوص نشے کا شمار تو پھر اس دور کے سستے ترین نشے میں ہوتا تھا لہذا کچھ ہی وقت میں اس کے سرور کا اثر زائل ہونا شروع ہوجاتا۔ پہلے چوبیس گھنٹے اس کا اثر بہت پر زور ہوتا، اڑتالیسویں گھنٹے تک مدھم ہو جاتا اور بہتر گھنٹے تک وہ قوم بالکل ہی آخری سانسیں لینے لگتی اور مردہ حالت کی طرف واپسی کے سفر پر مائل ہوجاتی۔

ویسے بہتر گھنٹے سے پہلے بھی اس نشے کا توڑ موجود تھا بیچ میں اگر کوئی کرکٹ میچ آجائے، کسی شہر میں بارش کے بعد موسم سہانا ہوجائے یا کوئی خوبصورت چہرہ ہی بے سُرا گیت گنگنا دیتا تو اس نشے کے اثر کی مدت مزید کم ہوجاتی اور وہ مردے خیر سے وقت سے پہلے ہی اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ جاتے تاوقتیکہ کسی سمت سے دوبارہ ان کو وہ خوشبو محسوس ہوجائے اور وہ سب زومبیز کی طرح ایک قطار میں دیوانہ وار اس کی طرف لپکنے لگیں۔

مورخ یہ دعوی بھی کرے گا کہ عام طور پر جس سمت سے یہ خوشبو آتی تھی، وہ خلا میں کہیں موجود تھی اور نامعلوم تھی مگر کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرے گا اور اس کی تحقیق کو افسانہ قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ مورخ کے ساتھ البتہ کیا سلوک ہوگا یہ آپ کے تخیل پر چھوڑے دیتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).