اپنی مغفرت کا احسان اپنے کھیسے میں رکھئے


\"FB_IMG_1468099874489\"کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں۔ بھائی کس نے پوچھا ہے کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں اور ہیں تو کیوں ہیں۔ جو چلا گیا اس نے کب آپ سے سند مانگی تھی اور جن ستتر سالوں میں وہ گندے نالوں سے لاشیں نکال رہا تھا۔ آپ کے لاوارث مردے نہلا رہا تھا۔ آپ کے دھتکارے معذوروں کو سینے سے لگا رہا تھا۔ آپ کے گھر سے بے گھر ہوئے آپ کے بڑوں کے سر پر چھت ڈال رہا تھا۔ آپ کی پوشیدہ راتوں کی کہانیوں سے بنتے معصوم کرداروں کو اپنا نام دے رہا تھا۔ آپ کی بہنوں اور ماؤں کے ننگے سروں کے لئے چادر بن رہا تھا تب بھیا آپ کیا کر رہے تھے۔

ایدھی نے آپ سے پیسوں کی بھیک بارہا مانگی تھی پر آپ کے عقیدوں میں گندھے فیصلے کے لئے اس نے کبھی کشکول نہیں بڑھایا تھا۔ یہ جو خودساختہ تصدیقی مہریں ایدھی کی تصویر پر سترہویں گریڈ کے گزیٹیڈ افسر کی طرح لگا رہے ہو اس کی ایدھی کو ضرورت نہیں ہے۔ تصدیق ان کی ہوتی ہے جنہیں کوئی پہچانتا نہیں ہے۔ ایدھی جیسوں سے تو پوری قوم کی تصدیق ہوتی ہے۔ سب لوگ وطن سے پہچانے جاتے ہیں پر کچھ ایدھی سے ہوتے ہیں جن سے وطن پہچانا جاتا ہے۔ پر یہ بات جنت دوزخ کے ٹکٹ بیچنے والے سیلز مینوں کو کون سمجھائے۔

کیا کیا نمونہ کاری دیکھی اس بہانے۔۔۔

ادھر ایک صاحب ایدھی کا موازنہ عبداللہ بنابی سے کر رہے ہیں اور پھر ازراہ احسان فرماتے ہیں کہ اگر ایک منافق کے لئے دعا ہو سکتی ہےتوایدھی صاحب کے لئے کیا ہرج ہے۔ آپ کی نوازش کے صدقے جائیے حضور۔

ایک صاحب کا خیال یہ ہے کہ جب تک عقیدے کا ایک خاص ٹھپہ نہ لگا ہو تب تک جنت میں داخلے کا فرمان جاری نہیں ہوتا اس لئے تمام مشککین کی تسلی کے واسطے ذاتی مشاہدے سےبتا رہے ہیں کہ انہوں نے خود ایدھی کو حنفی فقہ پر نماز پڑھتے دیکھا۔ اب چونکہ یہ مشاہداتی سند جاری کردی گئی ہے تو کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ ایدھی صاحب مولانا قاسم نانوتوی اور جناب اشرف تھانوی کے کندھوں پر سوار پل صراط کے پار نہیں اتر جائیں گے

ایک اورصاحب کو معجزاتی بیانیے کی سوجھی۔ پہلے تو یہ طے کیا کہ فلاں ابن فلاں شہید تھا اور کیا شہید تھا کہ پندرہ گھنٹے خون نہیں رکا۔ اب اس بحث میں کون پڑے کہ انسانی جسم میں جو پانچ لٹر خون ہوتا ہے وہ کتنی دیر بہہ سکتا ہے اور یہ ہیپا سٹیسس اور کوآگلیشن کس چڑیا کا نام ہے۔ معجزے میں یوں بھی عقل تو محو تماشائے لب بام ہی ہوتی ہے۔ تو جناب چونکہ ایدھی صاحب نے ان شہید حضرت سے عقیدت کا اظہار کیا اور پھر خالصتا اسلامی طریق سے ان کی نماز جنازہ بھی پڑھی تو بھائی وہ دل سے سچے مسلمان اور شہدا  کے عاشق تھے اس لئے بالکل قابل مغفرت ہیں۔

یہاں یہ یاد رکھئے کہ یہ قبیلہ جو اپنے علم مغفرت اور بخشش کی سند کا پرچار کرنے میدان میں اترا ہے یہ ان سے الگ ہے جن کے نزدیک ایدھی میاں ملحد، کافر ، زندیق اور جہنم کی راہوں کے مسافر ہیں۔ جہاں تک بات ہے ان کی تو بعض اوقات کچھ باتیں اور کچھ فتوے اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ ان پر ایک لفظ بھی ضائع کیا جائے اس لئے انہیں تو جھونکیے بھاڑ میں پر یہ جو میرے بھائی اپنے تئیں ایدھی کے دفاع کی آڑ میں اپنے تقدس کا مقدمہ کر رہے ہیں ان کو میرا مشورہ ہے کہ اپنی اپنی مغفرت کا احسان اپنے کھیسے میں رکھئیے۔ مغفرت اور بخشش کے قائل آپ کے بھائی بند ایدھی صاحب کے کئے گئے کام کا کروڑواں حصہ بھی کر نہیں پائے اور بن گئے جنت کے پراپرٹی ڈیلر۔

بڑا انسان اس دنیا کی تحسین اور اور ا ن دیکھی دنیا کےانعام سے  بے نیاز ہوتا ہے اور اسی لئے وہ بڑا آدمی ہوتا ہے۔ وہ آپ کی اور میری طرح ٹکے مار نہیں ہوتا۔   ایدھی کو جنت میں داخلے کے لیے ہرگز بھی  آپ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اپ  کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ اخلاقیات، انسانیت اور درد کے سرچشمے عقیدے سے نہیں، دل سے پھوٹتے ہیں۔ اس لئے آپ کو سمجھانے میں نہیں الجھتے پر بھائی میرے اپنی شرطیہ دعا اور اپنی تاویلات اپنے پاس رکھئے۔ ایدھی کو ان کی ضرورت نہ کل تھی نہ آج ہے۔ بس اعلان ختم ہوا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments