دہشت گردی کے بارے میں ہماری سنجیدگی؟


 

\"????????????????????????????????????\"

پاکستان پر ایک مرتبہ پھر قیامت ٹوٹی۔ نونہال قوم کو خون میں لت پت دیا گیا۔ حسب معمول نوید سنائی گئی کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے اور حملے میں ماردیئے گئے ہیں۔ حکومت اور سیکورٹی اداروں نے اعلان کیا کہ وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جائے گا۔ ایسی بے معنی خبریں سنتے سنتے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اگر وہ افغان تھے تو ایسے تمام مشتبہ افغانوں کو ڈی پورٹ کیوں نہیں کر دیا جاتا جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ ایسی آبادیوں کو خالی کیوں نہیں کرا لیا جانا جہاں خطرناک مجرم پناہ پاتے ہیں۔ آخر حکومت کے ہاتھ کس نے پکڑے ہوئے ہیں؟

یہ کوئی نیا حملہ ہے اور نہ آخری۔ درجنوں نہیں ‘ سینکڑوں مرتبہ شہریوں اور بالخصوص ہمارے بچوں پر خو ن میں نہلایا گیا ۔ ایک ہی رٹا رٹایا جواب قوم کو سننے کو ملتا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور سیاستدان ٹی وی چینلز پر ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ کچھ خواتین و حضرات ان خون آشام واقعات سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔ زخمیوں کے ساتھ فوٹوسیشن کراتے ہیں اور انہیں مشتہر کرتے ہیں۔

کون نہیں جانتا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گرد خوفناک جوابی وار کریں گے۔ پولیس ، مقامی سطح پر موجود خفیہ اداروں کا نیٹ ورک اور شہریوں کے تعاون کے بغیر دنیا میں کئی بھی دہشت گردوں کو کچلا نہیں جا سکا۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے علاوہ باقی سب لمبی تان کر سورہے ہیں جیسے کہ وہ قومی سلامتی سے متعلقہ تمام تر ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہوچکے ہوں۔

چند دن قبل پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی میں فرنٹیئر کانسٹبلری کے اعلیٰ افسروں نے دل دہلا دینے والی داستان بے بسی سنائی ۔ کہتے ہیں کہ ان کے جوانوں کے پاس ڈھنگ کا اسلحہ ہی نہیں۔ سردوگرم موسم کا مقابلہ کرنے کی ان میں سکت نہیں اور چلے ہیں کہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے جو ہیں ہی موت کے سوداگر اور جدید اسلحہ سے لیس ۔ نیکٹا نام کے ایک ادارے کا نام سنتے ہوئے عرصہ بیت گیا۔ کہا گیا تھا کہ یہ ادارہ دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ جہت حکمت عملی مرتب کرے گا۔ تمام خفیہ ایجنسیوں میں رابطہ کار کی خدمت سرانجام دے گا ۔ اس کے پاس جرائم پیشہ عناصر اور ان کے حلیفوں کی وسیع وعریض ڈیٹا بیس ہوگی ۔ افسوس! ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا کیونکہ عسکری اور سول اداروں کے مابین ایک عرصے سے یہ کشمکش چل رہی ہے کہ اس ادارے کی سربراہی کون کرے گا؟

پاکستان میں جاری دہشت گردی کا ایک پہلو اس کی خارجہ پالیسی میں پائے جانے والے ابہام بھی ہے۔ پاکستان کے سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی کے بقول ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ملکی خارجہ پالیسی پر سویلین حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ علاوہ ازیں متشدد نان اسٹیٹ ایکٹرز کے بیانیے کا بھی خارجہ پالیسی کے خدوخال مرتب کرنے میں بڑا کلیدی کردار بن گیا۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا کوئی نہ کوئی تعلق پاکستان سے نکل آتا ہے جس کا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ زمانہ لد گیا جب ایک ملک کا دہشت گرد دوسرے ملک کا ہیرو ہوتاتھا ۔ اب جو بھی عناصر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہیں دنیا ان کی پذیرائی نہیں کرتی اور جو ممالک ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتے ہیں انہیں عالمی برادری میں اچھوت سمجھا جاتا ہے۔

افغانستان اوربھارت کو شکایت رہتی ہے کہ پاکستان کی سرزمین ان کے مفادات کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ اب کچھ عرصہ سے ان دونوں ممالک کی لیڈرشپ نے کھلے عام یہ کہنا شروع کردیاہے کہ وہ پاکستان کو جوابی کارروائیوں سے اس قدر نڈھال کریں گے کہ اسے مجبوراًاپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ بھارت کے وزیردفاع منوہر پاریکر نے یہ بات لگ بھگ تین مرتبہ دہرائی ہے۔ اس طالب علم کو سینئر صحافیوں کے ایک گروپ کے ہمراہ افغانستان کے الیکشن سے قبل کابل میں موجودہ صدر اشرف غنی سے ملاقات کا موقع ملا۔ نپے تلے اندارمیں ششتہ انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا: اگر پاکستان نے اپنا طرزعمل نہ بدلا تو وہ یہ جنگ پاکستان کی سرزمین پر جاکر لڑیں گے۔

برسراقتدار آکرصدر اشرف غنی نے پاکستان سے تعلقات کی بہتربنانے کی سنجیدہ کوشش کی۔ انہیں اپنی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی سخت مخالفت کا سامنا بھی کرناپڑا ۔ طاقت ور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سربراہ رحمت اللہ گزشتہ ماہ دسمبرمیں محض اس لیے مستعفی ہوگئے کہ صدر اشرف غنی پاکستان کے تعلقات کی بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات پر اصرار کرتے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی کابل میں فروکش ہیں اور اشرف غنی کے خلاف یا ان سے بیزار عناصر کو رہنمائی اور سیاسی سرپرستی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان دشمنی ان کی رگ ویشے میں رچ بس چکی ہے۔

پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصہ میں افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں لیکن ابھی تک ان کے اثرات نمایاں نہیں ہوسکے ۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف بلا جھجک علاقائی اتحاد تشکیل دینا چاہیے تاکہ کوئی بھی پڑوسی ملک پاکستان مخالف عناصر کو اسلحہ، روپیہ اور سرپرستی فراہم نہ کرسکے۔ بھارت اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جو پاکستان کو لگ بھگ گزشتہ ستر برسوں سے عدم استحکام کا شکار کیے ہوئے ہیں۔ جہاں داخلی سطح پر سیکورٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں ان ممالک کے ساتھ مذاکرات اور معمول کے تعلقات قائم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اور پیش رفت کی بھی ضرورت ہے تاکہ انہیں پاکستان کے خلاف سازشوں کو ترک کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ اگر امریکہ کیوبا اور ایران کے مذاکرات کے ذریعے تعلقات بحال کر سکتا ہے تو پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیوں نہیں۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کے سربراہ تھے تو پاکستان کے عسکری اداروں کی دفاعی امور کے متعلقہ اپنی گرین بک میں بنیادی تبدیلی کی تھی۔ گرین بک ہی دراصل دفاعی ترجیحات کا تعین کرتی ہے ۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کو بیرونی سے زیادہ داخلی عناصر سے خطرہ لاحق ہے۔ اس کے بعد کچھ پالیسیوں میں تبدیلی اور بہتری رونما ہوئی تاہم ایک جامع پالیسی ابھی تک مرتب نہیں کی جا سکی۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد یہ کوئی راز نہ تھا کہ سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کو دہشت گرد حملوں کا خطرہ ہے لیکن ان کی حفاظت کا جامع انتظام نہیں کیا جا سکا۔ غالباً کیا بھی نہیں جا سکتا کہ کیونکہ حالیہ برسوں میں جس طرح نجی تعلیمی اداروں کی مشروم گروتھ ہوئی اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

ہر گلی محلے میں سکول اور کالج ہی نہیں کھلے ہوئے بلکہ رہائشی آبادیوں میں یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی کھل چکے ہیں۔ ایک دن میں نے اپنے گھر سے لے کر مرکزی شاہرہ تک تعلیمی اداروں کی تعداد گنی تو دنگ رہ گیا۔ محض ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے میں چھبیس سکول اور سوائے چند ایک باقی سب کے سب نجی گھروں میں قائم ہیں۔ میری اپنی صاحبزادی کو نرسری میں محلے کے ایک ایسے ہی سکول میں داخل کرایا توایک دن انہوں نے گھر لوٹ کر نوید سنائی کہ بابا آج سے ہماری کلاس کچن میں منتقل ہوگئی ہے۔ یہی حال رہائشی علاقوں میں دفاتر اور گیسٹ ہاﺅسز کا ہے۔ اسلام آباد میں چودھری نثارعلی خان نے اس رجحان کی کسی حد تک حوصلہ شکنی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مساجد کی تعمیر کا بھی حال مختلف نہیں۔ جہاں جس کا دل چاہتاہے مسجد اور مدرسہ قائم کرلیتا ہے۔ بعد میں انتظامیہ بے بسی کی تصویر بنی کھڑی رہتی ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments