جس کی لاٹھی، اُس کا میڈیا


جہاں ایک طرف نئے پاکستان میں تبدیلی کے گُن گائے جائے رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف سینکڑوں صحافیوں کو نئے پاکستان میں چینلز اور اخبارات سے فارغ کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سرکاری اشتہارات کی بندش یا کمی بتائی جاتی ہے۔

نئے پاکستان میں میڈیا کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ایک ایسی تبدیلی کے اثرات دکھا رہا ہے۔ جس کے لئے کوششیں تو سالوں سے جاری تھیں۔ لیکن ان میں کامیابی نئے پاکستان میں ہوئی۔ جس میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت پہلے 90 دنوں میں کوئی قابل قدر کامیابی حاصل کرنے میں تو ناکام رہی۔ لیکن اس عرصے میں حکومت نے میڈیا کو ایسی ”نتھ“ ڈالی کہ آزاد میڈیا پالتو کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی سمت میں چکر پر چکر لگانا اپنا اوّلین فرض سمجھتا ہے۔

نئے پاکستان میں میڈیا کو سیلف سینسر شپ کی ایسی ہدایات ملنے لگیں کہ دیکھنے والے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ میڈیا ہی پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وگرنہ 2002 میں پرائیویٹ میڈیا آنے سے پہلے پاکستان کی معیشت جاپان کو ٹکر دیتی تھی اور دنیا بھر میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا۔

اگر غور کریں تو میڈیا پر مطلوبہ سیلف سینسر شپ کا آغاز پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی شروع ہوگیا اور میڈیا کو ”سُست زہر“ کے ذریعے آختہ کرنا شروع کیا گیا۔ جس کے بعد اب حالت یہ ہے کہ میڈیا کو کسی ریگولیٹری باڈی یا سینسر بورڈ کی ضرورت نہیں، بلکہ میڈیا، میڈیا کا ہی ”گارڈ فادر“ یا ”سیسیلین مافیا“ بن چکا ہے۔ جو کہ شاہ سے بھی زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔

غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ میڈیا کو ٹھکانے لگانے کا کام ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ذریعے کیا گیا۔ جس کے لئے نواز لیگ حکومت کے اختتام اور نئے انتخابات کے انعقاد سے پہلے کا موزوں ترین وقت چُنا گیا۔ انتخابات کے ذریعے ایک ایسی حکومت ”سیلیکٹ“ کی گئی۔ جس کی شان میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے تجزیہ کاروں کے ذریعے تعریفوں کے پُل باندھ دیے گئے۔ تا کہ ایسی تبدیلی لائے جائے کہ لاٹھی بھی نا ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے۔

نئے پاکستان میں جہاں ایک طرف احتساب، احتساب کی گردان شروع کی گئی۔ وہیں دوسری طرف بذریعہ نئی حکومت میڈیا کے خلاف ایک بیانیہ پروان چڑھایا گیا۔ جس کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا گیا کہ چونکہ پچھلی حکومتیں کرپٹ تھیں۔ اس لئے وہ بذریعہ اشتہارات میڈیا کو کنٹرول کرتی تھیں اور چونکہ تحریک انصاف کی ساری قیادت صادق اور امین ہے۔ اس لئے وزیراعظم عمران خان کی حکومت بلیک میل ہوگی نہیں۔ اس لئے حکومت نے میڈیا کے ساتھ تو کون، تے میں کون والا روّیہ اپنا لیا۔

اس سوچی سمجھی حکمت عملی میں میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات کی بندش کے ذریعے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا اور بقیہ بچ جانے والے سرکاری اشتہارات اور کارپوریٹ اشتہارات میں کمی کی وجہ سے میڈیا ادارے صحافیوں کو برطرف کرنے پر مجبور ہو گئے۔ میڈیا مالکان کی جانب سے بقیہ اشتہارات کے حصول کے لئے ایسی پالیسیاں مرتب کی گئیں کہ کسی دوسرے ادارے کو میڈیا پر کسی بھی قسم کی پابندیاں لگانے کی ضرورت ہی نا رہی۔ بلکہ میڈیا پروان چڑھتے پودے کی طرح ایسے ”سُدھر“ گیا کہ میڈیا دکھائی تو آزاد دیتا ہے۔ مگر میڈیا اشتہاری نشے کا عادی بن چکا ہے۔ جن کے بغیر نئے پاکستان کا میڈیا اپنی بقا نہیں سمجھتا۔

حکومت کی طرف سے موجودہ میڈیا ماڈل کو ہی غیر حقیقی اور فرسودہ ثابت کیا جارہا ہے اور فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ریاست یا تو میڈیا کے لئے ”نجات دہندہ“ بن سکتی ہے یا پھر ”کلائینٹ“۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ریاست میڈیا کو بچاتی ہے تو پھر میڈیا کو بھی ریاست اور ریاستی اداروں کا خیال کرنا پڑیگا۔ نہیں تو ریاست دیگر کلائینٹس کی طرح اپنی مرضی سے میڈیا کو اشتہار دے گی اور وہ بھی ریاست کی مرضی، دے یا نا دے۔

وزیراطلاعات کا یہ موقف ثابت کرتا ہے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ناکام ہونے والے اب میڈیا کو بذریعہ اشتہارات کی آمدنی قابو میں کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ ریاست اور ریاستی ادارے میڈیا چلانے والے کاروباری سوداگروں سے واقف ہیں۔ چنانچہ حکومت کا ہدف چینلز یا اخبارات کے مدیر نہیں، بلکہ مالکان ہیں۔ جو کہ اپنے بزنس کے بچاؤ کی خاطر کسی بھی مدیر یا صحافی کو خاطر میں نہیں لاتے۔

میڈیا کے موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میڈیا کو اوقات میں (ہمیشہ کے لئے ) رکھنے کے لئے اتنی ہی ڈھیل دی جائے گی کہ جتنی برداشت کی جا سکے۔ پھر چاہے حکومت کسی بھی جماعت کی آئے۔ کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ کیونکہ میڈیا کے پر کٹ جانے کے بعد اس میں اتنا دم ہی نہیں ہوگا کہ وہ ”چوں“ بھی کر سکے۔ میڈیا اسی کا ہوگا۔ جس کے ہاتھ میں اشتہارات کی لاٹھی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).