بلوچستان پولیس سے سبق سیکھنا چاہیے


سانحہ ساہیوال کے بعد ایک بار پھر پاکستان کی پولیس کا کردار اور کارکردگی دنیا بھر میں زیر بحث ہے۔ اس سانحہ سے پوری قوم سوگوار ہے اور سکتے کی حالت میں ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہماری کیسی محافظ پولیس ہے جو حفاظت کرنے یا تحفظ دینے کی بجائے بڑی سفاکی اور وحشیانہ انداز میں بے گناہ شہریوں پر گولیاں برسا کر گھر اور خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو مار دیتی ہے اور پھر انہیں دہشت گرد بھی قرار دیتی ہے۔ بجائے غلطی کا اعتراف کرنے کے جھوٹ پر جھوٹ بول کر بیان پر بیان بدل کر لواحقین اور متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کرتی ہے۔ پولیس کے شعبے اور پیشے کو بھی بدنام اور داغدار کیا جاتا ہے۔

سانحہ ساہیوال اس طرح کے جعلی پولیس مقابلے کا نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ صرف گزشتہ 5 سال کے دوران سندھ اور پنجاب میں 2 ہزار سے زائد جعلی پولیس مقابلے ریکارڈ ہوئے ہیں جس میں سندھ پہلے اور پنجاب دوسرے نمبر پر ہے۔ ہر بار ایسے مواقع پر پولیس اور حکومت وقت کی جانب سے لاپرواہی اور متضاد بیان بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور پھر کوئی کمیٹی یا کمیشن تشکیل دے کر عوام کے غصے کو ٹھنڈا کر کے معاملے کو دبایا جاتا ہے۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاٶن ہو یا نقیب اللّٰہ محسود یا انتظار وغیرہ کا۔ ہر موقع پر پولیس خود دہشت گرد بن کر سامنے آئی ہے۔ مگر اپنے آپ کو بچانے کے لئے قتل ہونے والے بیگناہ شہریوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ انکوائری اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جن کو دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلوں کے ذریعے قتل کیا گیا ہے وہ تو بے گناہ تھے۔ اس کے برعکس وہ خود دہشت گرد ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود راٶ انوار سمیت کسی بھی پولیس افسر کو آج تک ایسے گھناونے جرم کی سزا نہیں ملی۔

جعلی پولیس مقابلوں میں سندھ اور پنجاب کی پولیس اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ فل فرائی اور ہاف فرائی تو ان کے معمولات میں شامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ سندھ اور پنجاب پولیس میں بہت اچھے دیانتدار اور فرض شناس پولیس افسرز اور اہلکار بھی موجود ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کو فرنٹ لائن پر لا کر بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع دینے کے بجائے کھڈے لائن لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس کا اصل اور مثبت چہرہ سامنے نہیں آ پاتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں اور بیگناہ شہریوں کی ہلاکت اور گھر اجاڑنے کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔

آپ بلوچستان پولیس یا بلوچستان لیویز کا ریکارڈ چیک کر کے دیکھیں آپ کو کبھی بھی اس طرح کا کوئی بھی وحشیانہ اور انسانیت سوز جعلی پولیس مقابلہ نظر نہیں آئے گا۔ حالانکہ بلوچستان پولیس اور لیویز کی تنخواہ بھی پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت بہت کم ہے۔ ان کی تعلیم بھی کم ہے ان کو حاصل سہولیات بھی کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں اس کے باوجود بلوچستان پولیس کی کارکردگی اور اس کا کردار قابل ستائش اور قابل فخر ہے۔ بلوچستان پولیس اپنے پیشے کے عین مطابق اپنے شہریوں کو عزت اور احترام بھی دیتی ہے اور ان کی جان و مال کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ قارئین کے ذہن میں شاید یہ سوال پیدا ہو کہ بلوچستان میں مئی 2011 کو خروٹ آباد کوئٹہ میں بھی ساہیوال جیسا واقعہ پیش آیا تھا تو جس میں 2 خواتین سمیت 5 چیچن پناہ گزینوں کو دہشت گرد قرار دے کر اسی طرح بیدردی اور سفاکی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا تو اس کے بارے میں وضاحت ضروری ہے

20 مئی 2011 کو خروٹ آباد کوئٹہ میں یہ سانحہ صرف پولیس کارروائی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ ایف سی اور پولیس کی مشترکہ کارستانی تھی۔ یہاں ایف سی چیک پوسٹ پر چیچن شہریوں کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی گئی ایک خاتون نے سفید کپڑا لہرا کر امن کی بھیک مانگی مگر جان بخشی نہیں ہوئی۔ بالکل اسی طرح جیسے قادر آباد ساہیوال میں خلیل نے سی ٹی ڈی پولیس کو پیسہ دینے کی پیشکش کر کے امن کی بھیک مانگی تھی مگر دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوا۔ دونوں سانحات میں ایک جیسے اتفاقات مشاہدے میں آئے۔ خروٹ آباد کوئٹہ کے واقعے کے بارے میں ڈی آئی جی کوئٹہ داٶد جونیجو نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ پانچوں دہشت گرد تھے، جنہوں نے ایف سی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید بھی ہوا اور ان سے خودکش جیکٹس و دیگر بارود بھی برآمد ہوئے۔  اس ڈی آئی جی کا تعلق سندھ سے تھا۔ جسٹس محمد ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کی گئی جس میں ان کا دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ وہ لوگ بارود پھٹنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا کہ ہلاک شدگان کی اموات گولیاں لگنے سے ہوئی تھیں۔

کمیشن رپورٹ کی روشنی میں ایف سی کے کرنل اور ڈی آئی جی پولیس داٶد جونیجو کو معطل کیا گیا تھا جن کا بعد میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوا جبکہ میڈیکل رپورٹ دینے والا پولیس سرجن ڈاکٹر سید باقر شاہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے قتل ہو گیا تھا اور کئی روز تک میڈیا ڈاکٹر باقر شاہ کے یتیم ہونے والے معصوم بیٹے کی اپنے والد مرحوم کی میت کے ساتھ لپٹی اور سہمی ہوئی تصویر دکھائی دیتی تھی جسے دیکھ کر پتھر دل بھی پانی ہوجاتے تھے۔ یہاں ساہیوال کے واقعے میں پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے بھی پریس کانفرنس میں قتل کیے جانے والوں کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا اور ان کی طرف سے پولس پر فائرنگ اور ان کے قبضے سے خودکش جیکٹس و دیگر بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر بعد ملنے والی ویڈیو کلپس اور عینی شاہدین کی گواہی سے سب کچھ غلط ثابت ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انکوائری کمیشن کی کیا رپورٹ آتی ہے اور نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

بلوچستان پولیس سندھ اور پنجاب پولیس سے بہت مختلف ہے۔ یہاں کوئی جعلی پولیس مقابلہ نہیں ہوتا اگر یہ ایک واقعہ پیش آیا تو وہ ایف سی چیک پوسٹ پر۔ جبکہ پولیس کا ڈی آئی جی مقامی نہیں بلکہ سندھ کا رہائشی تھا۔ اس کے برعکس مجموعی طور پر بلوچستان پولیس کا عام شہریوں کے ساتھ دوستانہ رویہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سندھ اور پنجاب پولیس سے عام شہری خوف زدہ رہتے ہیں جہاں جعلی پولیس مقابلے عام ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں خروٹ آباد سانحے کے بعد یہ فرق بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بلوچستان میں چیک پوسٹوں پر تعینات ایف سی کا بھی عام شہریوں کے ساتھ رویہ دوستانہ ہو گیا ہے۔ پولیس کے کردار کے حوالے سے سندھ اور پنجاب کی پولیس کو سبق سیکھنا چاہیے تا کہ پولیس اور شہریوں کے درمیان بہتر اور دوستانہ ماحول پیدا ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).