انکل بزدار کے پھول


عمیر کے چہرے پرماں اور باپ کے خون کی چھینٹں، دو معصوم بچیاں جن کے ایک جیسے رنگ کے سوٹ خون سے لت پت، کونپلوں کی طرح نازک جسموں میں تھر تھلی، گلاب ہونٹوں میں کپکپاہٹ، خوف اتنا کہ بہن بھائی ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ امی ابو اور بڑی بہن کو کیوں مارا گیا، ہمیں پیٹرول پیمپ پر چھوڑ کر پولیس والے فرار کیوں ہوئے؟ امی اور بہن کی کانوں سے بالیاں کیوں کھینچی گئیں، ہمارے کپڑے اور شادی کے لئے سامان سے بھرے بیگ اٹھا کر پولیس والے کیوں لے گئے۔ عمیر سوچ رہا ہے کہ اس پولیس والے انکل نے ایسا کیوں کیا کہ جب میں ابو کا موبائل جو زمین پر گرا تھا اٹھانے لگا تو میرے ہا تھ کو اپنے بھاری بوٹوں والے پاوں سے مسل کر رکھ دیا۔ “ عمیر نے یہ سوچتے ہی ہاتھ کو آنکھوں کے سامنے کیا تو اس میں نظر آیا کہ خون رگوں میں جم چکا ہے۔

ہسپتال میں نرس نے عمیر سے کہا۔ آو بیٹے میں آپ کے چہرے سے خون صاف کروں، نہیں آپی یہ میری ماں کے خون کے نشانات ہیں، انہیں رہنے دو۔

ہسپتال کے بستر پر جب عمیر کچھ دیر کے لئے مقتل کے خون آشام منظر کو فراموش کر کے نیند کی آغوش میں جانے کی کوشش کر رہا تھا تو اس کے کانوں میں آواز آئی ہٹو بچو ”وزیر اعلی عثمان بزدار آگئے ہیں لیکن خوف کے منظر میں جکڑی آنکھوں نے کھل کر انکل بزدار کو دیکھنے سے انکار کر دیا، کچھ دیر کے بعد آنکھیں کھلیں تو سرہانے پھولوں کا گلدستہ پڑا تھا، پھولوں کے گلدستے کو دیکھنے کے بعد سوچنے لگا کہ گلدستہ تو خوشی کے موقع پر لایا جاتا ہے، شاید جو منظر میں نے دیکھا تھا وہ کوئی ڈرونا خواب تھا میرے والدین اور بہن زندہ ہیں اس لئے بزدار انکل نے خوشی میں پھولوں کا گلدستہ دیا ہے، عمیر پوچھنے ہی والا تھا لیکن انکل جلیل اور کچھ لوگ آپس میں بات کر رہے تھے کہ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ بچوں کو انصاف ملے گا، یہ کیا، یہ انصاف کس کا نام ہے اور کون ہے، کیا یہ پھول میرے والدین کے زندہ ہونے کی خوشی میں نہیں لائے گئے ہیں؟

پھر خیال آیا کہ انکل بزدار پھولوں کا گلدستہ بھی لائے ہیں اور کسی انصاف کے ملنے کا بھی کہہ رہے تھے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انصاف کسی اور زبان میں والدین کو کہا جاتا ہو، ایسا ہے تو میں امی ابو کے گلے لگ کر ان سے پوچھوں گا کہ ابو ہمارے ساتھ ایسا مذاق کرنے کی کیا ضرورت تھی، ہم تو بہت ڈر گئے تھے، اب میں آپ کو شادی پر بھی جانے نہیں دوں گا۔ انکل کو فون کر کے کہو عمیر کو خوف آرہا ہے اس لئے ہم شادی میں نہیں آرہے ہیں۔

عمیریہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ انکل جلیل پاس آئے اور کہا بیٹا صبر کرو ہماری دنیا تو لٹ چکی ہے، بھائی اور بھابی اب واپس آنے والے نہیں وہ تو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو کر اللہ میاں کے پاس حاضر ہو چکے ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں میرے بیٹے اس رب سے ہی فریاد کریں گے جس رب نے بھائی اور بھابی کو اپنے پاس بلایا ہے کہ ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا دے، عمیر نے ہمت کر کے انکل جلیل سے پوچھ لیا انکل میرے امی ابو زندہ نہیں تو انکل بزدار نے یہ پھول کیوں لائے ہیں کیوں کہ مجھے میری ماما نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ کسی کے گھر خوشی کا موقع ہو تو پھول پیش کیے جاتے ہیں، میرے امی ابو زندہ ہوں گے اس لئے تو بزدار انکل پھول لے کر آئے ہیں، جلیل نے عمیر کے یہ الفاظ سنے تو ضبط کے سب بندھن ٹوٹ گئے اور چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپا کر کمرے سے باہر نکلے اور دھاڑیں مار کررونے لگے۔

قارئین کیا میری طرح آپ بھی یہ سوچ رہے ہو کہ کاش ہم کسی ایسی جگہ میں ہوتے جہاں نہ ٹی وی ہو نہ موبائل ہو نہ اخبار اور نہ ریڈیو، کاش ہم کسی ایسی بے خبر جگہ میں ہوتے توساہیوال کی قیامت کا درد تو نہ سہتے، اور کلیجہ پھٹ جانے والے وہ منظر بھی نہ دیکھتے کہ جب جس بیٹی کو ماں اور باپ کے ماتھوں پر پسینہ گوارا نہیں ہوتا ان ماتھوں پر بیٹیوں کے سامنے گولیاں ماری گئیں اور نہ انکل بزدار کے وہ پھول دیکھتے کہ جس بچے کی دنیا لٹ چکی ہے اس کے سرہانے پھول رکھ کر فوٹو بنواتے ہیں، میں نے توجب سے یہ قیامت میں نے دیکھی ہے رات کو گھر جاتا ہوں اور اپنے بچوں کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے ساہیوال کے پیٹرول پیمپ میں بے یارو مددگار وہ تین بچے یاد آتے ہیں جنہیں درندوں نے ان کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے مار کر بے یارو مددگار چھوڑاتھا، اور جسم و جاں میں خوف کی ایک لہر دوڑتی ہے کہ میں بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہوں جہاں راج انسانوں کا نہیں، شیطانوں کا ہے۔

نہ جانے کب اور کہاں میں بھی ایسے ظلم کا شکار ہو جاوں، گھر سے باہر نکلتا ہوں اور کسی پولیس والے پر نظر پڑتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوگا جس نے ساہیوال میں ظلم کی داستان رقم کی ہے، ہوٹر بجاتی ہوئی گاڑیوں کے قافلے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ان ہوٹر بجاتی ہوئی گاڑیوں میں بھی کوئی انکل بزدار پھولوں کا گلدستہ لئے کسی عمیر کے سرہانے رکھ کر فوٹو بنوانے جا رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).