ڈال سے ٹوٹے ہوئے پتے


پی آئی ڈی سی کے ساتھ پان کی دوکان سے جمیل نے مجھے پان دلایا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں سگریٹ پیتا ہوا، خود ہی پرل کانٹی نینٹل چلا جاؤں گا مجھے کار میں وہاں تک چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے سگریٹ سلگایا اور سڑک پار کر کے تیس پینتیس سال سے کھڑی ہوئی نامکمل بے آباد حیات ریجنسی کی عظیم الشان عمارت کی طرف پہنچ گیا تاکہ وہاں سے پرل کانٹی نینٹل کے دوسرے بڑے گیٹ سے ہوٹل چلا جاؤں۔ حیات ریجنسی کی اس عمارت کی تعمیر تقریباً پینتیس سال پہلے اس وقت شروع ہوئی جب میں میکلوڈ روڈ پر میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہ رہا تھا اور آتے جاتے عمارت کی تعمیر پر نظر پڑ جاتی تھی۔

پاکستان ریلوے کی قبضہ شدہ زمین پر جتنی گہری زمین کھودی گئی تھی اس سے لگتا تھا کہ یہاں پر بہت شاندار عمارت بنائی جائے گی۔ ریلوے کی اس طرح کی زمینوں پر حکمرانوں نے قبضے کر کر کے سارے ملکوں میں ایسی ہی عمارتیں بنا کر کروڑوں روپے اِدھر سے اُدھر کر دیئے ہیں۔ ریلوے کی طرح کے اداروں کی زمینوں کو ہر طرح کے حکمرانوں نے لوٹ مار کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے جس کو جہاں موقع ملا اس نے کرپشن کی گنگا جمنا میں خوب ہاتھ دھویا ہے۔ نہ جانے یہ عمارت کیوں مکمل نہیں ہو سکی۔ ایسی قیمتی جگہ اور یہ نامکمل عمارت ضرور لُوٹ کے مال کا حصہ بخرا کرنے میں جھگڑا ہوا ہو گا۔

میں ڈاکٹر بن گیا پھر ڈاکٹر بن کر امریکا چلا گیا۔ آٹھ سال کے بعد امریکا سے واپس آیا تو ریلوے کی زمین پر موجود کئی منزلہ پر نامکمل عمارت کھڑی دیکھی جس کے چاروں طرف سے اسے سیل کر کے بند کردیا گیا تھا۔ پتہ چلا کہ عمارت پر مقدمہ بازی ہو رہی ہے اور فی الحال حیات ریجنسی ہوٹل نہیں کھلنے والا ہے۔ اس وقت مجھے افسوس ہی ہُوا تھا کہ سالوں گزرنے کے بعد اتنی بیش قیمت اور اہم زمین پر اتنی بڑی عمارت تقریباً تیار ہو کر بے کار کھڑی تھی۔

اب تو ستائیس سال گزرچکے تھے۔ امی اور ابو دونوں ہی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک چھوٹی بہن عائشہ کراچی میں رہ گئی تھی اس کی چھوٹی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے میں اور ویرینکا آئے تھے۔ عائشہ کی خواہش تو یہی تھی کہ ہم اس کے ساتھ گھر پر ہی رہیں لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ پرل کانٹی نینٹل میں رہ کر تھوڑی آزادی کے ساتھ دن گزارے جائیں گے اور گنے چنے کراچی میں رہ جانے والے دوستوں اور ہم جماعتوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ دلچسپ محفلیں سج سکیں گی۔

عائشہ کے گھر پر انہیں بلانے کا مطلب یہ تھا کہ دن رات عائشہ ان کی مہمانداری کرتی رہے۔ ہوٹل میں تو سب کچھ بغیر تکلیف کے ہوجائے گا۔ ویرینکا بھی دن بھر عائشہ کے ساتھ گزار کر جب چاہے گی ہوٹل پہنچ کر آرام کرلے گی۔ شادی وغیرہ سے فراغت ہوچکی تھی۔ ہم دونوں نے کراچی اور دوستوں، رشتہ داروں کی مہمان نوازی کا خوب لطف اٹھایا۔ پرل کانٹی نینٹل میں بھی دوستوں کی محفلیں روز سجتی رہی تھیں اور اب جانے کا وقت آن پہنچا تھا۔

کراچی میں رہ جانے والے دوست بھی اچھا ہی کر رہے تھے۔ کچھ آغا خان ہسپتال میں اور کچھ سرکاری ہسپتالوں میں کام کر رہے تھے اور مصروف تھے۔ کچھ دوست جنرل پریکٹشنر بن گئے تھے اور بے تحاشا مصروف تھے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ جتنوں سے بھی ملاقات رہی وہ سب کے سب خوشحال تھے۔ ان کے بچے اچھے اسکولوں سے نکل کر ملک اور ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے۔

کوشش کے باوجود مجھے شاہد کا پتہ نہیں لگا۔ کالج میں ہم دونوں بہترین دوست تھے۔ وہ بلا کا ذہین تھا اور حد درجہ شرارتی اور کھلنڈرا۔ ہم دونوں نے ہاسٹل میں رہتے ہوئے اور کالج میں پڑھتے ہوئے نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ یادیں، وہ باتیں وہ سب کچھ پی سی کی نشستوں میں یاد کی گئیں اور ہنستے ہنستے ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وقت کتنی تیزی سے گزرگیا تھا۔ بچپن جوانی اور اب بڑھاپا سامنے نظر آ رہا تھا۔

دوستوں نے بتایا کہ میرے امریکا جانے کے بعد شاہد برطانیہ چلا گیا تھا جہاں اسے نوکری بھی مل گئی مگر ڈھائی سال کے بعد پاکستان آیا تو واپس نہیں گیا۔ پہلی دفعہ جب میں امریکا سے واپس آیا تو اس کے گھر گیا تھا۔ دو تین دفعہ کوشش کی مگر اس سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے یہ بھی پتہ چلا کہ علاج کے بعد وہ بالکل صحیح ہوگیا تھا۔ اس کی دوستوں سے ملاقات ہوتی رہی، پھر یکایک وہ منظر سے غائب ہوگیا تھا۔ میں نے اور دوسرے دوستوں نے شاہد کی شرارتیں یا بدمعاشیاں مزے لے لے کر دوبارہ سے بتائی تھیں اور سب ہی قہقہے میں شامل ہو گئے تھے۔

وقت حیات ریجنسی کی عمارت کے لیے تھم گیا تھا۔ میں نے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر عمارت کی دونوں جانب نظر دوڑائی، اُلٹے ہاتھ پر ٹوٹی پھوٹی فٹ پاتھ کے بعد پل تھا، جس پر گاڑیاں روانی کے ساتھ آ جا رہی تھیں۔ سیدھے ہاتھ پر فٹ پاتھ کچھ بہتر تھی اور دُور تک بجلی کے کھمبوں کی روشنی میں نظر آرہی تھی۔ میں نے سوچا کہ آگے لڑکیوں کے اسکول کی عمارت ہوگی پھر جناح کورٹس کا ہاسٹل ہوگا اور اس کے آگے ڈان اخبار کا آفس پھر نالہ پھر ہم لوگوں کے ہاسٹل سے پہلے ایرانی ہوٹل جہاں ہم لوگوں نے نہ جانے کتنوں ہی گھنٹے بیٹھ بیٹھ کر گزارے تھے۔

میں نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا۔ پرل کانٹی نینٹل کی عمارت پر ایک نظر ڈالی، سڑک کی دونوں جانب رواں دواں ٹریفک کو دیکھا اور سڑک کو پار کرنے سے پہلے حیات ریجسی کی اونچائی پر ایک نظر ڈالی ہی تھی کہ وہ میرے سامنے آگیا۔

مجھے کھانا کھلا دو۔ اس نے اپنی آواز اور حلیے سے مجھے ڈرا سا دیا۔ پرانی سی کئی جگہوں سے پھٹی ہوئی جین اور گندی سی قمیض میں ملبوس اپنی منتشر داڑھی کے ساتھ پُرالتجا نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ سامنے سے آتی ہوئی گاڑیوں کی روشی اس کے چہرے پر پڑتی پھر غائب ہونے لگتی تھی تو پچھلی گاڑی کی روشنی میں اس کا چہرہ جگمگا جاتا تھا۔ اندھیرے اُجالے میں اس کے چہرے کے خطوط شناسا سے لگے تھے۔

بہت بھوکا ہوں میں کچھ تو کھلادو۔ اس نے دوبارہ سے کہا تھا۔

یہ آواز تو سنی ہوئی تھی۔ بہت سنی ہوئی، میرے دماغ کے اندر بہت ساری گھٹیاں ایک ساتھ بجنی شروع ہوگئیں۔ شاہد! میں نے غور سے اس کی جانب دیکھا، وہی تھا۔ بدلی ہوئی صورت کے باوجود میں اسے پہچان گیا۔ کیسے بھول سکتا تھا میں اس آواز کو جس کا ساتھ کئی سالوں تک رہا تھا۔ جس آواز کے ساتھ آواز ملا کر میں نے گانے گائے، سیاسی نعرے لگائے، لڑکیوں کو چھیڑا، بحثیں کیں اور نہ جانے کیا کچھ کرتا رہا۔ ماضی تیزی کے ساتھ میری نظر کے سامے گھومتا چلا گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4