نعروں سے فرصت ملے تو کشمیر پر غور بھی کر لینا


\"wisiڈگری ڈگری ہوتی ہے ۔ اپنا قول عام کرنے کے لئے نواب صاحب بھوربن ہوٹل کی لابی میں آرام فرما رہے تھے۔ ایک کشمیری لیڈر بھی وہیں اپنی فیملی کے ساتھ تفریح برباد کر رہے تھے۔ لیڈر صاحب کا ایک پیارا سا بیٹا تھا۔ اس بچے نے جب نواب صاحب کو اس طرح کھلے میں لیٹ کر دنیا کے مسائل پر غور کرتے دیکھا تو بہت متاثر ہوا۔ اسے سمجھ نہ آئی کہ یہ کون ہیں اپنے ابا سے بولا کہ یہ انکل ٹی وی پر آتے ہیں۔

بچے کو اپنی طرف اشارہ کرتے دیکھ کر نواب صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے۔ باپ بیٹے کو طلب کر لیا کہ ادھر آؤ۔ بچے سے ہاتھ ملایا اسے پیار کیا حال چال پوچھا، یہاں تک پوچھا کہ بیٹا پڑھتے ہو۔ اس کے بعد بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔ باپ بیٹے کو رخصت کرنے سے پہلے اچانک لیڈر سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہو۔ لیڈر کیا بتاتا وہی بتایا جو کرتا تھا یعنی کشمیر آزاد کرانے میں لگا ہوا ہوں۔ وادی سے پاکستان آئے تھے اب یہاں سے وہاں جا کر اٹ کھڑکا کرتے ہیں کہ بھارتی تنگ آ کر کشمیر سے بھاگ جائیں۔

نواب صاحب تھوڑی دیر غور سے لیڈر کو دیکھتے رہے۔ پھر اسے کھینچ کر گلے سے لگایا اور کان میں بولے کہ کشمیر اور بلوچستان اکٹھے ہی آزاد ہوں گے۔

یہ سرگوشی لیڈر صاحب نے ہی سنائی تھی۔ اس دن کو گزرے مدت ہوئی کشمیری لیڈر جب بھی کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ان کو بلوچستان یاد آتا ہے اور وہ دل پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نواب صاحب اللہ جانے کس ترنگ میں تھے۔ ایسی بات کر بیٹھے جس کے ہزار مطلب ہیں۔ ایک یہ بھی ہے کہ نہ کشمیر کا کچھ ہونا نہ بلوچستان کا۔ دونوں جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔

ہمارے دفتر خارجہ نے گج وج کے اعلان کیا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر بن گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے بابو نے یہ بتانے کی زحمت ہی نہ کی کہ بھارت بھی ساتھ ہی ممبر بنا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا نے ایک کالم لکھ کر دفتر خارجہ کو ہدایت دی۔ ڈاکٹر صاحب نے کالم میں سمجھایا کہ ابھی ممبر بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اگلے سال پاکستان اور بھارت کو فل ممبر کا درجہ دیا جائے گا۔ ابھی صرف پروٹوکل پر دستخط ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے اگلے سال تک کچھ شنگھائ تعاون تنظیم کی جانب سے عائد کچھ ذمہ داریاں پوری کرنا ہیں۔

یہ ذمہ داریاں ضرور پکا راگ گانے کی پریکٹس وغیرہ ہی ہو گی۔ یہی مشترکہ مہارت ہے دونوں ملکوں کی۔ بس یہ جان لیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم جس مقصد کے لئے بنی وہ ایک اعلامیہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ تنظیم کے رکن ممالک ہر قسم کی شدت پسندی دہشت گردی اورعلیحدگی پسندی کے خلاف ہیں۔ کوئی کان وغیرہ کھڑے ہوئے؟ بس ایسا ہی ہے ۔ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ہے یہ تنظیم سارک جیسی نہیں ہے۔ اپنے رکن ممالک کے تنازعات بھی طے کرانے کی کوشش کرنا بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے۔

ایک اہم کشمیری لیڈر سے دوستی اور ہمسائیگی ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی کشمیری قیادت سے ملنے کا اکثر اتفاق ہوا۔ پار سے تعلق رکھنے والی جتنی بھی کشمیری قیادت ہے۔ ساری کی ساری ہی بہت سمجھدار اور زمینی حقائق سے واقف ہے۔ وہ چاہے عسکری محاز پر سرگرم ہوں یا سیاسی۔ اپنی محدودات سے بھی واقف ہیں اور ممکنات سے بھی آگاہ ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہوں یا اس سے آزاد ہونا یا پھر پاکستان سے الحاق۔ سب کو معلوم ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔

اس تنازعے کا ایک فریق اور ہے وہ ہیں کشمیر کے لوگ۔ ان کی گھڑی پاکستان کا معیاری وقت بتاتی ہے۔ وہ کشمیر ہی نہیں بھارت کے بہت اندر بھی کسی شہر میں ہوں۔ نعرے پاکستان کے ہی لگاتے ہیں۔ پاک بھارت میچ میں پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارتیوں سے مار کھاتے ہیں پھر بھی باز نہیں آتے۔ عید ہمارے ساتھ مناتے ہیں۔

ہم پاکستانی کشمیر سے غیر متعلق ہو چکے ہیں۔  وادی میں برہان وانی نے اپنے لہو سے وہ چنگاری جلائی ہے جو بھڑک کر الاؤ بن گئی ہے۔ ساری وادی بند ہے اور کشمیری احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم تو پہلے ہی غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ یہ تحریک اب کشمیر کے حقیقت پسند لیڈروں کے ہاتھ سے بھی نکل گئی ہے۔

اس خطے میں امن ترقی ایک خواب ہی رہے گا جب تک کشمیر بے قرار رہے گا۔

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments