دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا


ساہیوال کا دل خراش سانحہ اپنی نوعیت کا پہلا سانحہ نہیں، بھیانک حقیقت یہ ہے کہ یہ آخری بھی نہیں۔ ہم میری مراد ہماری ریاست اگر چاہے تو یہ اس نوعیت آخری سانحہ ضرور ہوسکتا ہے۔ شائد ایسے سانحات رونما ہونا بند ہوجاتے اگر جوان رعنا نقیب اللہ محسود کے قاتل انجام کو پہنچا دئے جاتے۔ راو انوار جیسوں کی پشت پر جب ریاست کی طاقت کھڑی ہوجائے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے؟

راو انوار باعزت طور پر ریٹائرڈ ہو گئے اور نقیب کی پہلی برسی منائی گئی، مجھے لگا کہ یہ نقیب کی برسی نہیں بلکہ اس ریاست کی برسی تھی جس پر ساہیوال سانحے نے مہرِ تصدیق ثبت کرلی۔ نقیب کی درجنوں تصویرں انٹرنیٹ پر موجود ہیں، آپ اس کی کوئی بھی تصویر اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں زندگی نظر آتی ہے۔ جوان رعنا نقیب رنگوں کا پجاری لگتا ہے، جگنوؤں اور تتلیوں کا متلاشی، خوشبوؤں کا شیدائی۔ اس کی کسی تصویر میں بندوق تو کیا غلیل تک نظر نہیں آتی۔ایک دنیا جس میں چارسُو رنگ بکھرے ہیں۔ پھر اتنی بیدردی سے موت کیوں؟ اور ستم بالائے ستم، الزام دہشت گردی کا۔ نقیب کی موت درحقیقت اس نظام سے وابستہ امیدوں کی موت تھی۔
دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے۔

جوان بیٹے کی موت کو بزرگ باپ نے جواں مردی سے سہا، قبائلی روایات کو بالائے طاق رکھ کر انتقام کی بات نہیں کی بلکہ اپنا معاملہ قانون کے حوالے کردیا لیکن قانون نے کیا کیا؟ قاتل کو ایک ہیرو کا پروٹوکول دیا۔

نقیب شہید کے والد کا بیان ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ انہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں، وہ انہیں انصاف فراہم کریں گے۔ نقیب کے والد جاتے بھی تو کہا جاتے؟ ریاست کا سب سے طاقتور آدمی جب انہیں انصاف دلانے کا وعدہ کرتا ہے، لیکن اپنے وعدے کی پاسداری میں ناکام رہتا ہے، جب ملک کی سب سے بڑی عدالت ازخود نوٹس لیتی ہے اور دن دیہاڑے کئے گئے قتل پر کاروائی آگے نہیں بڑھتی تو کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ریاست کے اندر ایک اور ریاست موجود ہے، جس کے کرتا دھرتا کھلے عام معصوموں کا خون بہانے سے بالکل نہیں گھبراتے۔ طاقت کے نشے میں چُور لوگ کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے سے نہیں گھبراتے لیکن کیا ہم کسی جنگل میں رہ رہے ہیں کہ معصوم بچیوں کی موجودگی میں ان کے والدین گولیوں سے چھلنی کر دئے جاتے ہیں، کیا ہم میں زرا سا بھی خوفِ خدا باقی نہیں رہا؟

ستم بالائے ستم قتل کرنے کے بعد حکومت کے نمائندے کس ڈھٹائی سے بیانات دیتے ہیں، کیا ان لوگوں کے ضمیر مر چکے ہیں، کیا ان کے سینوں میں دل کے بجائے پتھر پیوست ہیں؟ وزیراعلی نامی شے کو اتنا شعور نہیں کہ جہاں جنازے اٹھتے ہوں وہاں پھول نہیں لے کر جاتے۔بائیس سال اخلاقیات پر لیکچر سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے، نواز شریف اور زرداری پر تنقید کرنے والے ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم کے حافظے کی سلیٹ کیا بالکل صاف ہوگئی ہے کہ گھر میں پڑی لاشوں پر پوری قوم کو نوحہ کناں چھوڑ کر قطر نکل دیے۔

کاغذ کی کشتیوں پر سمندروں کے سفر طے نہیں کئے جاتے، ساحل پر کھڑے رہ کر طوفان کا صرف تماشا کیا جاسکتا ہے، طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے دل میں اترنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو اگر اپنے ماضی کے فرمودات یاد ہوتے تو وہ وزیراعلی پنجاب اور اپنی پوری کابینہ کو ساتھ لے کر جائے حادثہ پر پہنچتے اور اس وقت تک وہاں سے واپس نہ آتے جب تک اس واقعے کے زمہ داران گرفتار نہ کر لئے جاتے۔ وزیراعظم صاحب اپنے انتخاب کو لاکھ وسیم اکرم سے تشبیہ دے حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلی پنجاب تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ وزیراعظم صاحب اُن سے فوراً جاں خلاصی کرکے نیا وزیراعلی لے آئیں ورنہ بزدار صاحب پی ٹی آئی کا سفینہ ڈبو دیں گے۔

معصوم بچیوں کی غمزدہ تصویریں آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہی ہیں، لکھنے کا یارا نہیں، پہلی دفعہ گالیاں دینے کو جی کر رہا ہے، اس لئے اور لکھنے سے اجتناب ہی اچھا۔
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
تری رسوائی کے خونِ شہداء درپے ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).