سیکورٹی ادارے، ملتان ائیرپورٹ اور سیکورٹی


چند دن پہلے لگ رہا تھا کہ ہم رشوت دیتے بال بال بچ گئے ہیں آج لگا کہ نہیں ہم تو مرتے مرتے بال بال بچے ہیں۔ وہ جو ذرا سا تھا وہ دراصل بہت کچھ اور بھی ہو سکتا تھا۔ ہوا اس بار یہ تھا کہ اس بار ٹکٹس کے مسائل میں الجھ کر ہمیں ملتان ائیرپورٹ پر اترنا پڑا اور اس بہانے ملتان یاترا کا بھی نادر موقع ملا۔ ملتان انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اترنے سے لے کر واپس ملتان سے اڑنے تک کچھ نئی چیزیں اس بار بھی سامنے آئیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے ایک چیز تو بہت واضح دکھائی دے دیتی ہے جو جانے پاکستان میں رہنے والوں کو مسلسل دکھائی دیتی ہے کہ نہیں۔

وہ ہے سڑکوں پر بے تحاشا، فوج اور رینجرز پھر چاہے وہ لاہور ہو، کراچی کہ ملتان۔ اس کی وجہ سالہا سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا ہمارے سویلین اداروں کی نا اہلی، لیکن سالوں بعد جب آپ پاکستان کی سرزمین پر قدم دھرتے ہی ہر راہ ہر چوک پر سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت دیکھتے ہیں تو پہلا خیال یہی دماغ میں آتا ہے کہ شاید یہاں مارشل لاء چل رہا ہے۔ مگر یہ کیسا مارشل لاء ہے جو پچھلے دس سالوں سے جمہوریت کے ریپر میں لپٹا ہے، یا یہ کیسی جمہوریت ہے جو گیارہ سالوں سے سیکورٹی اداروں کے پہیوں پر چل رہی ہے۔ اس بات کو جس طرح آپ کا دل اور دماغ چاہے اپنی خواہش کے مدنظر رنگ دے لیں۔

واپسی کے لئے جب ایک بڑے ہوٹل کی گاڑی کے ڈرائیور نے گاڑی ٹھیک اس جگہ پارک کی جہاں پر بڑا بڑا لکھا ہمیں بھی واضح طور پر دکھائی دیتا تھا کہ یہاں پارکنگ منع ہے۔ ہم شرمندہ سے اترے کہ شاید یہ بورڈ پہلے کا لگا ہو اب اصول بدل گئے ہوں۔ پاکستان اب عرصے بعد کچھ ہی دنوں کے لئے آنا ہوتا ہے تو یہاں کے رس ورواج ہم بھولتے جاتے ہیں اور بہت جلدی یہاں کی کسی بھی بات کا مطلب سمجھ نہیں پاتے۔ اترتے ہی پورٹر کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک سیکورٹی کا افسر آتا دکھائی دیا۔

ہم نے گھبرا کر نظریں ذرا سی موڑیں کہ شاید وہ ہمیں اس غلط پارکنگ کے لئے روکنے آ رہا ہے مگر وہ ہماری طرف آیا ضرور مگر اس کا ایسا کچھ بھی کرنے کا کوئی ارادہ نہ دکھائی دیا تو ہم نے بڑھ کر اسی سے پوچھ لیا کہ بھائی پورٹر کدھر سے ملے گا تو اس نے ہاتھ سے ہمیں اس سمت اشارہ کیا جدھر پارکنگ کی باقاعدہ جگہ تھی۔ اور اصولا پورٹر کو ادھر سے ہی ملنا چاہیے تھا چناچہ ہم نے اپنے اندر ذرا سی خفت بھی محسوس کی۔ لیکن اس کے باوجود اس بھلے مانس نے ہماری گاڑی کی غلط پارکنگ کی بات تک نہ کی۔

یہ تو بہت بعد میں جانا کہ اس کی خموشی کی وجہ شاید بڑے ہوٹل کی وہ گاڑی تھی جو ہمیں ڈراپ کرنے ائیر پورٹ آی تھی اور جس میں صرف ایگزیکٹو لوگ قیام کرتے تھے عام نہیں۔ تو ہمیں خود بھی خبر نہ تھی کہ ہم اس وقت ایگزیکٹو تھے عام نہیں اس لئے یقینا ہم پر یہاں کسی بھی قانون کا اطلاق نہ ہوتا تھا۔ تو یہ بات وہ ہوٹل کا ڈرائیور بھی جانتا تھا اور سیکورٹی کا افسر بھی ایک محض ہم ہی اس بات سے قطعی لاعلم عام لوگوں کی طرح اک حال بے نیازی سے ادھر ادھر دیکھتے چلتے تھے۔ ہمیں جو خبر ہوتی تو ہم بھی گردن کو ذرا اکڑا کر تھوڑی اونچی کر کے اور ہونٹ ذرا مروڑ کر سامنے دیکھتے زمین کو روندتے کچھ دیر چل لیتے کہ واپس پہنچ کر تو ہمیں کوئی بھی ایسی رعایت نہیں دیتا ہم چاہے پانچ کی بجائے سات ستارے والے ہوٹل سے نکلیں۔ ہماری غلطی پر ہمیں وہیں دھر کر ہمارا چالان کر دیا جاتا ہے۔

ائیر پورٹ کے اندر بھی ہم نے رینجرز کے افسران دو دو تین تین جوانوں کی لائن ساتھ لئے چکر لگاتے یا آتے جاتے دیکھے۔ تو یہ بھی سوچا کہ شاید اس دبدبے اور رعب کی خاطر اب سویلین بھی دو چار سیکورٹی گارڈز آس پاس ستاروں کی طرح ٹانکے بغیر چلنے پھرنے سے گھبرانے لگے ہیں۔ اور شاید اسی چکر میں ہمارے سیاستدانوں اور فوج میں اصل طاقتور کون کا مقابلہ ہر وقت چلتا رہتا ہے اور ہم عوام نجانے کس الف لیلی کا نشہ پی کر ان میں سے کسی کی بھی پارٹی بنے، ان کی طاقت میں اضافے کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔

تو اسی ائیرپورٹ سے سارے مراحل طے کرتے سارے سکینرز سے گزر کر جب ہم چیک ان کے آخری کونے پر تھے تو سیکورٹی ادارے کے ایک جوان، یا افسر، یہ دیکھنے کی ہم نے زحمت کی تھی نہ ضرورت محسوس کی، اگرچہ یہ ضرور دیکھا کہ سی اے اے کا بندہ نہ تھا کہ کچھ عرصے سے انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر مسافروں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی ہمارے بھی دھیان میں رہتی ہے اور ہم ضرورت سے زیادہ محتاط اور پرے پرے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تو وہ لمحہ جب ہم رشوت دیتے بال بال بچے کچھ ایسا تھا کہ ہم چار لوگ دو بچوں کے ساتھ اور چھ سات چھوٹے بڑے بیگز اور ڈبے ٹرالی میں دھکیلے اندر لئے جاتے تھے جب وہ صاحب ہمارا پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑے کچھ زیادہ ہی متوجہ ہو گئیے۔ پہلے میاں کا تمام تر حدود اربعہ پوچھا، ان کی نوکری کی تفصیلات سے لے کر ان کے عملے کی تفصیلات تک پوچھیں بس یہ نہیں پوچھا کہ یہ جو ساتھ چادر لپیٹے ایک مسکین سی عورت ہے یہ خالی روٹیاں ہی پکاتی ہے کہ کچھ لکھتی لکھاتی بھی ہے۔

ویسے بھی اسے خاصی تسلی تھی کہ ان چھوٹے شہروں میں کہاں بڑے بڑے لوگ اترتے ہیں جو کوئی دیکھنے اور پوچھنے والا ہو گا۔ جب اس کے بے تکے سوالوں کا جواب دیتے ہم کھڑے کھڑے تھک گئیے کہ اس کی نیت سے لگتا تھا کہ وہ شاید صرف وقت گزاری کو ہم سے لمبی دیر تک ادھر ادھر کی ہانکنے کے موڈ میں ہے۔ تو جو ہم ضرورت سے زیادہ بور ہوے تو مجھے اپنا سیدھا سادا حلیہ نظر انداز کر کے آگے بڑھ کر پوچھنا پڑا سر جی مسلئہ کیا ہے۔ تو پتا چلا کہ ان کو ہمارے کارٹن کے بڑے ڈبوں میں موجود سامان کے بارے میں شدید تشویش ہے۔

اب میں نے آگے بڑھ کر ہاتھ بڑھا کر اسے پہلا ڈبہ دکھایا کہ بھائی اس ڈبے میں وہ کھلونے ہیں جو میرے بچے جہاں جاتے تھے خرید کر لے آتے تھے میرے نہ نہ کرنے کے باوجود کہ میں ہزار سمجھاتی کہ بیٹا یہ کھلونے لیجانے پر مجھے جتنی محنت کرنی پڑنی ہے یہ اتنے دن بھی نہیں چلنے۔ تو بہتر ہے کہ یہ پیسے بچا کر وہیں ابوظہبی سے کچھ اچھے کھلونے لے لینا۔ مگر بچوں کو سمجھ نہیں آتی وہ پاکستان کی ہر چیز کو اہم اور قیمتی سمجھتے ہیں۔

تو پھر مجبورا بچوں کی اس محبت کی خاطر ہمیں ان کھلونوں کو بڑی محنت سے ڈبوں میں پیک کر کے ساتھ لیجانا پڑتا ہے۔ محبت کتنی قیمتی ہوتی ہے یہ تب سمجھنا پڑتا ہے۔ پھر دوسرے ڈبے کا بتایا کہ جناب اس میں وہی محبت ماں اور ساس کے ہاتھ کی بنی پنجیریوں کی صورت میں ہے کہ کیا کریں نہ ساس صاحبہ اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے ساتھ جانے پر راضی ہیں نہ ماں جی کہ اپنے گھر سے اچھا ان کو پردیس نہیں لگتا تو ہم مجبورا ان کے ہاتھ کی پنجیری لے جاتے ہیں اور کچھ دن اسے کھاتے ان کی خوشبو اور ذائقہ محسوس کر لیتے ہیں۔

اور یہ تیسرا ڈبہ جوتوں سے بھرا ہے کہ ان کی گنجائش ہمارے سوٹ کیسز میں نہ تھی۔ اب اس سادہ سی عورت کو اتنا بولتے دیکھا تو افسر صاحب ذرا کھسیا کر پیچھے ہوئے اور ہمیں آگے جانے کی اجازت ملی۔ یہ بعد میں جانا کہ دراصل وہ کچھ چائے پانی اینٹھنے کی نیت میں تھے جس کو میری بے جا مداخلت نے ناکام کر دیا تھا۔ بحر حال وہ افسر تھے کہ جوان پھر بھی بہت بھلے انسان تھے کہ اگر وہ مسکرا کر پیچھے ہونے کی بجائے ہم میں سے کسی کو اندر گھسیٹ کر چھترول لگا دیتے تو یقینا ہماری دہائی سن کر بھی ہمیں کوئی بچانے نہ آتا بلکہ اس کے بعد شاید معافی بھی ہمیں مانگنی پڑتی اور اخباروں میں ہماری تصویریں اور چیخنے چلانے کی وڈیوز دیکھ کر لوگ چٹخارے بھی لیتے کہ ہنہ! یہ باہر کے لوگ خراب دماغ والے آ جاتے ہیں ہمیں ضابطے اخلاق کے سبق دینے، بہت اچھا ہوا ان کے ساتھ۔

تو ایسی اعلی روایات انہیں ایئرپورٹس کی موجود ہیں تو اس لئے وہ صاحب یقینا بہت ہی بھلے انسان تھے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ اتنا انصاف نہیں کیا اس کے لئے ہم ہمیشہ ان کے احسان مند رہیں گے۔ مگر یہ بات ختم یہاں نہیں ہوئی بلکہ اب یہ جانا کہ صورتحال یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ہمیں آٹھ دس گولیوں سے اڑا دیا جاتا اور میڈیا پر دہشت گردوں کی گرفتاری کی خبر بھی چل سکتی تھی اور ان سے اسلحہ سے بھرے کارٹن کی برآمدگی بھی۔ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا پالا ایک نرم دل سیکورٹی افسر سے پڑا اور ہم جان، مال اور عزت کی حفاظت کے ساتھ پردیس واپس پہنچ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).