دیسی کھلاڑیوں کی زبان پر ولایتی پریشانی


جنوبی افریقہ کے ٹیل اینڈر اینڈیلی پسواؤ سے پاکستانی کپتان سرفراز احمد عاجز آ گئے تو بے اختیار کہہ اٹھے ”ابے کالے! تیری امی آج کہاں بیٹھی ہوئی ہیں، کیا پڑھوا کے آیا ہے ان سے“۔ ان کی بدقسمتی کہ وہ وکٹ کیپر ہیں، اور وکٹ میں مائیک لگا ہوتا ہے جس نے ان کے اس اظہار حیرت کو دنیا بھر میں نشر کر دیا۔ اب کراچی کا کوئی بھی اہل زبان تو یہ جان سکتا ہے کہ سرفراز احمد اس شخص پر نسل پرستانہ حملہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک عام سا دیسی اظہار حیرت کر رہے ہیں کہ ”جوان تو ہے تو باؤلر، پھر ایسی بیٹنگ کسی وظیفے کے بل پر ہی کر رہا ہو گا۔ تیری اماں مصلے پر بیٹھی دعا کر رہی ہو گی“ آپ نے پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنی اچھی پرفارمنس کا سبب قوم اور والدین کی دعائیں ہی بتاتے سنا ہو گا، تو سرفراز اس کھلاڑی کی پرفارمنس کو بھی کسی وظیفے کا نتیجہ سمجھ رہے ہوں گے۔

ویسے یہ جنوبی افریقی اتنے مشکل نام پتہ نہیں کیوں رکھتے ہیں۔ اس شخص کا نام ہم دیسی انگریزی میں اینڈل فیہلوکوائیو پڑھ رہے ہیں، وہ تو قسمت اچھی کہ اس کو خود اپنا نام بتاتے سنا تو پتہ چلا کہ وہ خود کو اینڈیلی پسواؤ کہتا ہے۔

بہرحال ہر کلچر میں نسل پرستی کا معیار کچھ مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں لفظ نِگر ایک شدید نسل پرستانہ گالی ہے، جبکہ لاطینی سے آئے اس لفظ کا مطلب کالا ہے، اسی سے نیگرو بھی نکلا ہے۔ بلیک کا مطلب بھی کالا ہوتا ہے مگر امریکی کالے اور گورے اسے نسل پرستانہ لفظ نہیں سمجھتے۔ ہماری رنگ برنگے لوگوں والی دھرتی میں کالا اور گورا وغیرہ نسل نہیں بلکہ صفت ظاہر کرتے ہیں اور کالے خان، بھورے میاں اور بگا یعنی سفید وغیرہ لوگوں کا نام رکھا جاتا ہے۔

اب سرفراز ہمارے کلچر کے مطابق تو کوئی نسل پرستانہ جملہ نہیں کس رہے تھے، مگر نسل پرستی کی خوفناک تاریخ رکھنے والے جنوبی افریقہ میں ”ابے کالے“ کا نہ جانے کیا ترجمہ کیا گیا ہو گا، پتہ نہیں اسے بلیک سمجھا گیا ہو گا یا نگر، مگر سرفراز پر نسل پرستی کا الزام لگا گیا ہے اور ان کی آئی سی سی میں پیشی ہو سکتی ہے۔

اگر سرفراز کالے کی بجائے کالیا کہہ دیتے تو اتنا لفڑا نہ ہوتا۔ اس کا سیاق و سباق سمجھانے کے لئے سرفراز کے وکیل آئی سی سی کو فلم شعلے دکھا دیتے اور درمیان درمیان میں کمیٹی والوں کی طرف ایک کمینی سی مسکراہٹ اچھالتے رہتے۔ فلم ختم ہونے پر پوچھ لیتے ”کچھ سمجھ میں آیا ٹھاکر؟ “ امید ہے کہ فلم میں ٹھاکر کا رول دیکھنے کے بعد آئی سی سی والے سمجھ جاتے کہ ”تیرا کیا ہو گا کالیا“ ڈائیلاگ کیوں عام زبان میں شامل ہو گیا ہے اور بلاوجہ پنگا لینے والے ٹھاکر کا کیا انجام ہوتا ہے۔

بہرحال اس طرح کی مس ٹرانسلیشن تو ہوتی رہتی ہے۔ سب سے مشہور واقعہ جنوری 2008 میں سڈنی میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان ہوا جسے منکی گیٹ کے نام سے شہرت ملی۔ ہوا یہ کہ اینڈریو سائمنڈز آسٹریلیا کی ٹیم کے واحد گہری رنگت والے کھلاڑی تھے۔ اوپر سے انہوں نے بال ایسے رکھ لیے کہ جب وہ انڈیا کے دورے پر گئے تو بھارتیوں کو ان کی شکل میں ہنومان جی کے قبیلے کی شباہت محسوس ہونے لگی اور وہ انہیں منکی منکی کہہ کر اپنی عقیدت کا اظہار کرنے لگے۔ انڈیا میں تو چلو ہنومان جی سے عقیدت کی وجہ سے بندر مقدس سمجھے جاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں بھی کسی بچے یا جوان وغیرہ کو بندر، بلکہ فصیح پنجابی میں باندر کہہ کر پکارا جائے تو اس کا مطلب بھی یہ لیا جاتا ہے کہ اسے پیار سے شرارتی کہا جا رہا ہے۔ ہاں دشمن اگر ایسا کہے تو اس کا کچھ مختلف مطلب ہوتا ہے جسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔

تو جب سڈنی میں یہ ٹیسٹ شروع ہوا تو ساری انڈین ٹیم کو آسٹریلوی باؤلرز نے واپس بھیج دیا۔ بس سچن ٹنڈولکر اپنی وکٹ پر ٹکے ہوئے تھے۔ دوسرے اینڈ پر ٹیل اینڈر ہربھجن سنگھ آ گئے اور آؤٹ ہونے سے انکاری ہو گئے۔ ایک موقعے پر بریٹ لی نے ایک کمال کا یارکر مارا۔ ہربھجن سنگھ بمشکل آؤٹ ہوتے ہوتے بچے۔ سنگل لیتے ہوئے انہوں نے اپنے بیٹ سے بریٹ لی کو پشت پر تھپکی دے کر گویا داد دی کہ ”استاد کیا باؤل کرائی ہے“۔ اس پر بریٹ لی نے تو کوئی ناراضگی ظاہر نہ کی مگر اینڈریو سائمنڈز آ گئے اور ہربھجن سنگھ کے بارے میں چند جنسی ارمانوں کا اظہار کرنے لگے۔ اس پر ہربھجن سنگھ نے جواب میں ان کی والدہ محترمہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ”تیری ماں کی۔ ۔ ۔ “۔

سائمنڈز نے رولا ڈال دیا کہ اس شخص نے مجھ پر نسل پرستانہ فقرہ کستے ہوئے مجھے منکی یعنی بندر کہا ہے۔ آسٹریلیا کے دو تین مزید کھلاڑی اچھلتے کودتے آ گئے کہ یہ نسل پرستی نہیں چلے گی۔ بھارتی کپتان انیل کمبلے نے آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کو معاملہ آپس میں طے کرنے کا کہا، ہربھجن سنگھ تو معافی مانگنے سے انکاری تھے کہ میں نے کوئی نسل پرستانہ جملہ نہیں ادا کیا، لیکن انیل کمبلے خود معافی مانگنے کو تیار ہو گئے۔ اس پر پونٹنگ نے سمجھا کہ اپنی جیت تو پکی ہے، میچ ریفری مائیک پراکٹر کو رپورٹ کر دیا۔

کسی کھلاڑی کی نسل، مذہب، جنس، رنگ وغیرہ کی بنیاد پر کوئی تضحیک کرنا کوڈ آف کنڈکٹ میں لیول تین کا جرم ہے جس کی سزا دو سے چار ٹیسٹ یا چار سے آٹھ ون ڈے کی پابندی ہوتی ہے۔ میچ ریفری پراکٹر نے عدالت لگا لی۔ بھارت کی جانب سے ہربھجن اور ساتھی بیٹسمین ٹندولکر کی گواہی ہوئی۔ آسٹریلیا کی جانب سے میتھِیو ہیڈن اور مائیکل کلارک نے گواہی دی کہ انہوں نے ”بگ منکی“ کا لفظ سنا تھا، اس کے آگے پیچھے کے لفظ ان کو یاد نہیں۔ ٹنڈولکر نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ہربھجن انگریزی نہیں ہندی بول رہے تھے۔ پونٹنگ پہلے ہی ہربھجن پر تپا ہوا تھا کیونکہ اس نے پونٹنگ کو آؤٹ کر کر کے اس کی شہرت تباہ کر ڈالی تھی۔ پراکٹر نے ہربھجن پر تین میچ کی پابندی لگا دی اور کہا کہ ”دونوں میں اسے ایک پارٹی ہی سچ بول رہی ہے“۔ یعنی ٹنڈولکر جیسا لیجنڈ بھی جھوٹا قرار دے دیا۔

اس پر انڈین بورڈ نے لفڑا کر دیا اور ٹور کینسل کرنے کی دھمکی دی۔ خیر آئی سی سی نے نیوزی لینڈ کی ہائی کورٹ کے جج جان ہینسن کے سامنے مقدمہ پیش کیا۔ اس نے احتیاط سے اہم ہندی گفت و شنید سیکھی اور فیصلہ دیا کہ گالیاں دینے کا میچ سائمنڈز نے شروع کیا تھا، اور ہربھجن نے جوابی گالی دی ہے، نسل پرستانہ تبصرہ نہیں کیا۔ ہربھجن کو کچھ جرمانہ کر کے کلئیر کر دیا گیا۔ بہرحال اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو ”منکی“ اور ”ماں کی“ کے درمیان فرق کا علم ہو گیا۔

آسٹریلین ٹیم میچ کے دوران اشتعال انگیز اور توہین آمیز مکالموں کے لئے بدنام ہے جسے سلیجنگ کہتے ہیں۔ ہربھجن کہتے ہیں کہ گلین مکگرا مجھے مسلسل سلیج کر رہے تھے۔ وہ ہکا بکا تھا کہ یہ کون ٹیل اینڈر پٹائی کر رہا ہے جبکہ ہم سارے بیٹسمین آؤٹ کر چکے ہیں۔ اس نے ایک گالی دی، میں نے تین دیں۔ اس نے دو دیں میں نے پانچ دے کر حساب چکتا کر دیا۔ آخر آسٹریلویوں نے ہار مان لی۔ ویسے گلین کا شاید کسی پنجابی سردار سے ٹاکرا نہیں ہوا تھا جو یہ حماقت کر بیٹھا۔ ان امور میں پنجابی کی فصاحت و بلاغت لاجواب ہے۔

سائمنڈز کے متعلق ہربھجن کا کہنا ہے کہ ”میں نے اسے کہا تھا تیری ماں کی ۔ ۔ ۔ ہاتھ کی روٹی کھانے کو بڑا دل کر رہا ہے۔ اس نے مجھے سنا ہی نہیں، وہ ہندی نہیں جانتا تھا اور مجھے انگریزی نہیں آتی تھی“۔

ہربھجن اس فن میں شعیب اختر کے معترف ہیں۔ کہتے ہیں ”شعیب مجھے بہت گالیاں دیتا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا کھاتا پیتا تھا۔ شاید ہمیں وہ فار گرانٹڈ لیتا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ مجھے چھکا لگانے کا چیلنج دیا۔ اور جب میں نے چھکا مارا تو وہ شاکڈ رہ گیا۔ پھر اس نے مجھے دو مسلسل باؤنسر مارے جن سے میں بچ گیا۔ پھر اس نے مجھے گالی دی اور میں نے جواب دیا۔ لیکن میچ کے بعد ہم ایسے اکٹھے گھل مل گئے جیسے کچھ نہیں ہوا“۔

”ایک مرتبہ شعیب نے مجھے دھمکی دی کہ وہ میرے کمرے میں آ کر مجھے مارے گا۔ میں نے کہا آ جاؤ، دیکھتے ہیں کون کسے مارتا ہے۔ میں سچ مچ ڈر گیا تھا۔ وہ بہت بڑا دھوش ہے۔ ایک مرتبہ اس نے ایک کمرے میں بند کر کے مجھے اور یووراج سنگھ کو بہت پھینٹا تھا۔ کیونکہ وہ بہت بھاری تھا اس لئے اسے قابو کرنا مشکل تھا“۔

دوسری طرف اس منکی بزنس نے اینڈریو سائمنڈز کا کیرئیر ختم کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے احساس جرم نے کہ اس نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں رکی پونٹنگ، میتھِیو ہیڈن اور مائیکل کلارک کو اس معاملے میں گھسیٹا تھا، اسے شراب میں ڈوبنے پر مجبور کر دیا۔

سائمنڈز اس واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں ”میں نے کہا ’سنو *****، ہم یہاں دوست بنانے نہیں آئے۔ تم یہاں چوٹ کھانے والے ہو‘ ۔ اس کے بعد اس نے کہنا شروع کر دیا ’تم منکی کے سوا کچھ نہیں ہو‘ ۔ اس نے شاید یہ دو تین مرتبہ کہا۔ اس لمحے سے میرا زوال کا سفر شروع ہو گیا“۔ شراب میں ڈوب کر سائمنڈز کا کیرئیر ختم ہو گیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar