سانحہ ساہیوال: افسر معطل، اہلکار ملزم، حکومت اور وزیر اعلی سرخرو


انصاف وہ جو نظر آئے۔ اس کی سنہری مثال گزشتہ روز پنجاب حکومت نے پیش کی ہے اور آج وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ساہیوال سانحہ پر اپنی حکومت کی کامیابی کا ڈنکا بجاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بہتر گھنٹے کے اندر اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کو انصاف فراہم کرنے کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ یوں ہفتہ کے روز ساہیوال کے قریب معصوم بچوں کی موجودگی میں ان کے ماں باپ اور بہن کے وحشیانہ قتل پر پنجاب حکومت اور تحریک انصاف ’سرخرو‘ ہوئی۔

اس سب دنوں میں پاکستان کے وزیر اعظم سے لے کر پنجاب کے وزیر قانون تک یہ بتاتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں مختلف ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے تسلسل سے اس معاملہ پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ موجودہ حکومت کے لئے ساہیوال سانحہ ٹیسٹ کیس ہے اور وہ اس کے ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دلوا کر دم لے گی۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی اسی قسم کا دعویٰ کرتے ہوئے ’نئے پاکستان‘ کا حوالہ دے کر کسی اسکول کے ہونہار طالب علم کی طرح بتاتے رہے ہیں کہ اب معاملات کو مختلف طریقے سے نمٹا جائے گا۔

کل شام پانچ بجے جے آئی ٹی کو ’مجبور‘ کر کے، ابتدائی رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا تاکہ حکومت کی طرف سے تین دن کے اندر رپورٹ سامنے لانے اور قصور واروں کو سزا دلوانے کا اقدام سب دیکھ سکیں۔ رپورٹ پیشکیے جانے اور اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد ’نتائج اور فیصلوں‘ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر قانون راجہ بشارت نے بتایا کہ ’جے آئی ٹی رپورٹ نے سی ٹی ڈی کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے‘ ۔ اس کے بعد انہوں نے حکومت کے فیصلوں کا اعلان کیا اور بتایا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کے تین افسروں کا تبادلہ کردیا گیا ہے، دو مقامی افسر معطلکیے گئے ہیں اور اس واقعہ میں براہ راست ملوث پانچ اہل کاروں پر اقدام قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلایا جائے گا۔

ان فیصلوں کی بنیاد پر ہی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے آج پنجاب اسمبلی کو بتایا ہے کہ ’حکومت نے 72 گھنٹے کے اندر ساہیوال سانحہ کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ پورا کردیا ہے‘ ۔ تاہم یہ سمجھنا آسان نہیں کہ یہ فیصلہ کس طرح اسی قسم کے معاملات میں سابقہ حکومتوں کی کارروائیوں سے مختلف کہا جائے گا۔ دراصل سب حکمران سیکورٹی اداروں کی طرف سے کسی بھی غیر ذمہ دارانہ اقدام کو عام لوگوں کی یادداشت سے محو کروانے کے لئے ’کارروائی‘ ہی ڈالتے رہے ہیں اور ویسی ہی کارروائی اب پنجاب حکومت نے بھی ڈالی ہے۔

جس کے بعد نئی حکومت کے نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں کی توصیف تعریف میں قلابے ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تعریف چونکہ نہ میڈیا کی طرف سے سننے کو مل رہی ہے اور نہ ہی اس ’کارورائی‘ میں کچھ نیا ہے اس لئے وزیر قانون اور وزیر اعلیٰ خود ہی اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے، خود کو ہی اس امتحان میں ’سرخرو‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کررہے ہیں۔

جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ نے گزشتہ روز تین دن کی مدت میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو تمام شواہد دیکھنے اور معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ لیکن پنجاب حکومت نے سیاسی دباؤ کی وجہ سے جے آئی ٹی کو مقررہ مدت میں عبوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ واقعات کو تسلسل سے دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو سیاسی دستاویز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نامکمل شواہد اور نتائج کی بنیاد پر محکمہ انسداد دہشت گردی کے متعدد افسروں کو معطل یا تبدیل کیا گیا ہے جبکہ واقعہ میں ملوث نچلے رینک کے پانچ افسروں پر اقدام قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ تاہم تفصیلی رپورٹ سامنے آنے اور عدالت میں پیش کی جانے والی گواہیوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر ان سب لوگوں کا بری ہونا ناممکن نہیں ہو گا کیوں کہ انصاف فراہم کرنے میں سرخرو ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود حکومت اس مؤقف پر قائم ہے کہ سی ٹی ڈی کی کارروائی درست تھی۔ کل بھی وزیر قانون راجہ بشارت نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ایکشن تو ٹھیک تھا لیکن اس میں ایک خاندان کو قتل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ’انقلابی‘ اقدامات کا اعلان بھی کیا ہے اور وزیر قانون کے منہ سے یہ بھی کہلوا دیا ہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری سی ٹی ڈی پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کو جاری نہ کیا جائے۔ وزیر قانون کا کہنا ہے کہ جب تفصیلی رپورٹ سامنے آئے گی تو اسے میڈیا کو دکھا دیا جائے گا۔ اسی طرح کل پریس کانفرنس کے دوران جب صحافیوں نے جے آئی ٹی رپورٹ، سانحہ کے بارے میں دستیاب شواہد اور حکومت کے رد عمل کے بارے میں سوال کرنے کی کوشش کی تو وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’صحافیوں کے لئے ان کیمرا بریفنگ کا اہتمام کیا جائے گا، وہاں ان کے ہر سوال کا جواب دیا جائے گا‘ ۔ گویا حکومت یہ اعلان کررہی ہے کہ وہ اس واقعہ کی ذمہ داری پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی پر ڈالنے کے باوجود تمام تفصیلات سامنے لانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ رویہ شفافیت کے ہر اصول کے خلاف ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali