ہم سب ایدھی ہیں۔۔۔۔۔


عبدالستار ایدھی صاحب کی وفات پر پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر کی دنیا نے افسوس کا اظہار کیا۔ جنازہ کو احترام اور تکریم سے ادا\"abrash\" کیا گیا اور وہ بانچویں پاکستانی ہیں جس کی نماز جنازہ ریاستی طور پر ادا کی گئی۔ وفاقی حکومت نے یک روزہ اور صوبائ حکومتوں نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرکے مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی وفات پر غم کا اظہار کیا۔ ساتھ میں ایدھی کے خدمات کے اعتراف کے طور پر نشان امتیاز کا اعلان ہوا جو اعلی ترین سول ایوارڈ ہے۔

 پاکستانیوں کے اکثریت نے ایدھی صاحب کے وفات کے بعد اُن کو ملنے والی عزت اور احترام کو سراہا اور اُن کی خدمات کو شاندار الفاظ میں یاد کیا۔ ایدھی صاحب کے کام اور ان کے اقوال کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ ایدھی صاحب ایک انسان دوست شخص تھے اور اپنی زندگی انسانی خدمت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ خود کافی سادہ زندگی بسر کی اور دوسروں کو بھی بار بار یہی تلقین کرتے رہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ایدھی صاحب اور اس کے انسان دوست کام کو ہم نے دیکھا ۔اس زمانے میں ایسے لوگوں کو ملنا جو خودغرض نہ ہوں اور ایک حقیقی انسان ہو ، بالکل ناممکن سی بات ہے۔

زیادہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود ایدھی صاحب نے اپنے کام کو ایک ماڈل کے طور پر ترقی دی۔ کسی ریاستی ادارے سے مدد لینے کی حوصلہ شکنی کی اور عام لوگوں کے پاس جا کر ان سے مدد لی۔ اچھی بات یہ ہے کہ عام پاکستانیوں نے ایدھی صاحب پر اعتماد کیا اور ایدھی صاحب نے بھی اسی اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی، جب بھی ناگہانی افت آئی ایدھی صاحب ہمہ وقت تیار رہے۔ ایدھی صاحب نے بچوں، معذوروں کے لئے شلٹر، بیماروں، مُردوں کے لئے دنیا کی بڑی ایمبولینس سروس کی خدمات فراہم کیں۔ ایدھی صاحب نے پرندوں اور جانوروں کے بہبود کے لئے بھی کا م کیا۔

 ایدھی صاحب اکثر کہا کرتے تھے انسانیت میرا مذہب ہے۔ جو لوگ خدمت خلق یا انسانی حقوق کا کام کرتے ہیں وہ مذہب، قومیت، جنس اور نسل وغیرہ کے چشمے اُتار دیتے ہیں۔ وہ ہر کسی کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں۔ اُن کے سامنے اُن کا مقصد ہوتا ہے نہ کہ سامنے والے کی مذہب، قومیت، جنس یا نسل۔ اسی طرح وہ سب کے لئے قابل قبول بھی ہوتے ہیں اور اس پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایدھی صاحب بھی اس اصول پر پورا اترے اور جب ہندوستان کی گونگی بہری گیتا ان کے پاس آئی اور اُس کے حرکات و سکنات سے پتہ چلا کہ وہ ہندو ہے تو اُنہوں نے اسکے لئے مندر کا بندوبست کیا۔ ایدھی صاحب نےاس قول پر پورا عمل کیا کہ اپنے عقیدے کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔

 ایدھی صاحب نے ایسے بچوں خصوصاً نومولود بچیوں کو جن کے والدین پیدائش کے فوری بعد پھینک دیتے تھے کے لئے جھولے لگا کر اُن کی جان بچائی۔ بچوں کو جس وجہ سے بھی پھینکا جاتا ہے وہ قتل کرنے کے ارادے سے ہی ایسا کرتے ہیں۔ بچے جائز یا ناجائز جس طریقے سے بھی اس دنیا میں آئے ہوں وہ معصوم ہیں اس میں ان بچے اور بچیوں کا کوئی دوش نہیں ہوتا۔ ایدھی ان بچوں کے ولدیت کے خانے میں اپنی اور اپنی بیوئ بلقیس ایدھی کا نام لکھتے۔ پچھلے سال بھی ایدھی سنٹر میں 212 بچے آئے جس میں 195 لڑکیاں تھیں۔

ایدھی صاحب کے کام کے حوالے سے کچھ دوست حضرات یہ کہہ رہے ہیں کہ ایدھی صاحب کو لوگوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنا چاہئے تھا اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے کہ بھیک مانگ کر ان کو کھلایا جائے اور ان کے مسائل کو فوری حل کرے۔ یہ ایک بہت بڑا دلچسپ اعتراض ہے۔ حقوق اجاگر کرنے کے حوالے سے سینکڑوں اور ہزاروں شہری و سماجی و سیاسی تنظیمیں کام کرتیں ہیں۔ اور ان کو اس طرح سے کام کرنا بھی چاہئیے اور ان پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ مگر جب صورتحال یہ ہو کہ کوئی بندہ دنوں کابھوکا ہو، ایک دن یا 5/6 گھنٹوں کا نو مولود بچہ ہو، سڑک پر پڑا ایکسڈنٹ کی وجہ سے زخمی، بے ہوش یا مردہ ہو تو کیا اس کو پہلے حقوق کے حوالے سے جانکاری دی جائے یا پہلے اس کا مسئلہ حل کیا جائے۔ کھلایا جائے، اس کی حفاظت کی جائے، زخمی کو ہسپتال پہنچایا جائے اور مردے کو اپنے علاقے پہنچایا جائے یا اسکے کفن دفن کا بندوبست کیا جائے۔ ایدھی صاحب کے کام کے حوالے سے یہ اعتراض بالکل بے جا ہے۔ ہاں یہ سارے کام ریاست اور معاشرہ کو کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر معاشرہ اپنے مسائل میں گم ہو یا بے حس ہواور ریاست ناکامی سے دوچار ہو تو کون کرے گا ان کاموں کو؟۔ ایدھی صاحب اور اس جیسے دیگر فلاحی ادارے اگے آتے ہیں۔ ان اداروں کے کام کو دیکھ کر پھر لوگ معاشرے کو جھنجوڑتے ہیں اور ریاست کے ارباب اختیار سے مطالبات شروع کرتے ہیں۔ شعور کی بیداری اور حقوق کی جانکاری کے لئے لوگوں اور ریاست کو باخبر کرانا وقت طلب کام ہے۔ ہمارے ہاں لوگ فوری تبدیلی کے خواہشمند واقع ہوئے ہیں اگر ایسی تبدیلی آئے گی بھی تو وہ دیر پا نہیں ہوگی۔ ہاں ان احباب کو چاہیئے کہ وہ مذہبی، سیاسی اور عسکری تنظیموں کے زیر سایہ چلنے والی فلاحی اداروں پر نظر رکھیں اور اس پر بات کریں تاکہ لوگ کھرے اور کھوٹے میں فرق کر سکیں۔

ایدھی صاحب جیسے لوگ دنیا میں ایک بار آتے ہیں۔ ہمیں یہ یقین کرنا چاہئے کہ اب کوئی دوسرا ایدھی جیسا نہیں آئے گا۔ ہم سب مل کر بے لوث ایدھی بنیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر پاکستانی اور دنیا کے ہر شہری کو چاہئے کہ ایدھی کو اپنا رول ماڈل بنائے۔ اس کے لئے کسی بڑے ادارے یا پروجیکٹ میں کام شروع کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ ہم اپنے روزمرہ کے معمولات میں ان کو سر انجام دے سکتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے جو کام کئے اس سے زیادہ اور مختلف کام کی ضرورت ہے۔ ہمیں تھوڑا تھوڑا کرکے ضرورتمندوں کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہیئے خواہ وہ اپنے گھر میں ہو، کسی بچے یا بڑے کو لکھنے/ سیکھانے میں مدد فراہم کی جائے۔ چھوٹے بچے، معذور، بزرگ، خاتون، یا کسی جانور کو سڑک پار کرایا جائے۔ اپنے ماحول کا خیال رکھا جائے، پودے اُگائے جائیں اور ان کا خیال رکھا جائے۔ کسی بیمار کی مدد کی جائے، گھر کے اس پاس، دکان کے اس پاس، کسی سڑک پر گند نہ پھیلایا جائے۔ بجلی، پانی کو بچایا جائے، پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کیا جائے، بیکار چیزوں کا دوبارہ استعمال کیا جائے ۔ فضول خرچی، زیادہ کھانا پکانا اور ضائع کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ گھروں پر اکثر ادویات استعمال کے بعد رہ جاتی ہیں اور پھر خراب ہو کر ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر ادویات کا بینک قایم کیا جائے تو یہ ادویات کسی کے علاج کے لئے مفت میں کام آ سکتی ہیں۔

اگر ہم ان تمام امور پر کام شروع کریں تو ان کا براہ راست مثبت اثر ہم پر پڑے گا جو رقم اور وسائل بچ جاِیئں تو اسکو ہم کسی فلاحی کام پر خرچ کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف یہ وسائل کسی دوسرے ضرورت مند کے کام آ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments