کوئی جا کر عمیر، منیبہ اور ننھی کو بتائے


کوئی جا کر عمیر، منیبہ اور ننھی کو بتائے کہ سانحہ ساہیوال کی دوسری رات ہی ”سپر بلڈ وولف مون“ یعنی پورے چاند کا گرہن تھا۔ صدیوں پرانے توہمات اور کئی طرح کی دیومالائی کہانیوں میں سپر بلڈ وولف مون کے بارے میں بتایا جاتا کہ ایک مرتبہ راہو شیطان نے آب حیات پینے کی کوشش کی تو چاند نے اسے ایسا کرنے سے روکا۔ راہو شیطان نے جونہی آب حیات کا ایک گھونٹ پیا، چاند نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس طرح آب حیات اُس کے حلق تک ہی رہا۔

 راہو شیطان کا جسم سر سے الگ ہونے کے باعث مرگیا لیکن سر اور گردن آب حیات پہنچ جانے کے باعث زندہ رہے۔ راہو شیطان نے اپنی اِس شکست کا بدلہ لینے کے لئے چاند کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی۔ جونہی وہ چاند کو اپنے جبڑے میں لیتا تو چاند سے خون کے فوارے ابل پڑتے۔ اُس وقت زمین پر چاند سرخ نظر آتا اور جب وہ چاند کو اپنے منہ سے حلق میں اتارتا، زمین پر چاند نظر آنا غائب ہوجاتا لیکن گردن کے بعد راہو شیطان کا جسم نہ ہونے کے باعث چاند گردن کے سوراخ سے باہر نکل آتا۔ یوں زمین پر چاند دوبارہ صحیح حالت میں نظر آنے لگتا۔ راہو شیطان اور چاند کی یہ جنگ اُس وقت سے جاری ہے۔

ایک اور کہانی کے مطابق تیرہویں صدی عیسوی میں موجودہ کولمبیا امریکا میں ”اِنقا سلطنت“ قائم تھی۔ وہ چاند کو اپنی دیوی مانتے تھے اور اسے ”ماما کلا“ کے نام سے پکارتے تھے۔ سپر بلڈ وولف مون کے بارے میں اِنقا سلطنت والوں کا عقیدہ تھا کہ چاند دیوی ماما کلا چاندی کے انسو روتی ہے جب اُس پر بھیڑیا نما جانور حملہ کر دیتا ہے۔ جونہی بھیڑئے نما جانور کے خون خوار دانت چاند دیوی ماما کلا کے جسم میں پیوست ہوتے ہیں تو ہرطرف خون پھیل جاتا ہے۔

اس لئے اس وقت زمین پر چاند سرخ نظر آتا ہے۔ ماما کلا چاند دیوی کو بھیڑیئے نما جانور سے بچانے کے لئے انقا کے لوگ زمین پر زور زور سے شور مچاتے، چیخیں مارتے، نیزے لہراتے اور اپنے کتوں کو بھونکنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے۔ اُن کے خیال میں اِس شوروغل سے بھیڑیئے نما جانور اُن کی چاند دیوی ماما کلا کو چھوڑ دیتا اور پھر چاند گرہن ختم ہو جاتا۔

اسی طرح موجودہ ایران، عراق، شام اور مصر کے علاقوں میں قائم صدیوں پرانی ریاست میسوپوٹیمیا کے لوگوں کا سپر بلڈ وولف مون کے بارے میں نظریہ تھا کہ جب بھی چاند گرہن لگتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ چاند پر خونخوار بھیڑیوں نے حملہ کردیا ہے۔ وہ خیال کرتے کہ اگر چاند پر حملہ ہوسکتا ہے تو یہ بھیڑیئے ان کے بادشاہ پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ اس لئے سپر بلڈ وولف مون کے دوران وہ اپنے بادشاہ کو غاروں میں چھپا دیتے اور اُس کی جگہ کسی عام آدمی کو ڈمی یا فیک بادشاہ کے طور پر ظاہر کر دیتے۔ جب تک چاند گرہن رہتا، ڈمی یا فیک بادشاہ کو تخت پر بٹھائے رکھا جاتا۔ چاند گرہن ختم ہونے کے بعد اصل بادشاہ کو گہرے غاروں سے نکال کر دوبارہ تخت پر بٹھا دیا جاتا۔

پرانے یورپ کے کئی ملکوں میں بھی پورے چاند گرہن کے بارے میں یہ توہم پرستی موجود تھی کہ اُس رات جو بھی کھلے آسمان کے نیچے سوئے گا اور اُس پر اِس کی روشنی پڑے گی وہ چاند گرہن کے دوران بھیڑیا نما انسان بن جائے گا جسے ”ویئر وولف“ کہا جاتا تھا۔ یہ ویئر وولف اپنے جیسے ہی انسانوں کا خون پی جاتے۔ انہیں لوگوں کو ہلاک کرتے ہوئے اپنے اوپر کنٹرول نہ رہتا۔ چاند گرہن ختم ہونے کے بعد وہ عام انسان بن جاتے اور اگلے سپر بلڈ وولف مون تک عام انسانوں کی طرح ہی رہتے۔ سولہویں صدی میں قدیم فرانس کے باشندوں پیئر برگوٹ، مچل ورڈن اور گائلز گارنیئر پر شک کیا گیا کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو مار کر اُن کا خون پیتے ہیں۔ اس الزام کے بعد انہیں ویئر وولف کی سزا کے طور پر سرعام جلا دیا گیا۔

پندرہویں صدی میں قدیم جرمنی کے ایک کسان پیٹر سٹب پر بھی ویئر وولف ہونے کا الزام لگایا گیا اور اُسے سرعام مار دیا گیا۔ بھیڑیئے نما انسانوں کی مندرجہ بالا جھوٹی کہانیاں سن کر کم سن بچے عمیر، منیبہ اور ننھی ڈریں گے نہیں کیونکہ انہوں نے بھیڑیئے نما انسانوں کا اس سے کہیں زیادہ خوفناک، ڈراؤنا اور سچا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ ویئر وولفس نے ان کی دیوی نما ماما نبیلہ کے جسم کو کئی گولیاں مارکر خون میں ڈبو دیا۔

 انہوں نے دیکھا کہ اُن کی چاند سی بہن اریبہ پر ظالم بھیڑیئے نما انسانوں نے بندوقوں سے فائرنگ کی۔ اُس معصوم کی کلائیوں میں اتنی کانچ کی چوڑیاں نہیں تھیں جتنی اُس کے پاک جسم میں بارود بھری سیسے کی گولیاں اتار دی گئیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اُن کے گھر کے بادشاہ یعنی اُن کے ابو خلیل اور اُن کے ڈرائیور ذیشان پر بھی ویئر وولفس چاروں طرف سے حملہ آور ہوئے۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں خونخوار بھیڑیئے نما انسانوں سے بچتے، اُن کے جسموں کو بارودی گولیوں کی بوچھاڑ سے ریزہ ریزہ کر دیا گیا۔

کوئی جا کر عمیر، منیبہ اور ننھی کو بتائے کہ گھبرانا نہیں کیونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے انہیں پھولوں کے گلدستے پیش کیے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کے ابو، ماما اور بہن کے عوض دو کروڑ روپے بھی دیے جائیں گے۔ ان کے خاندان کی تباہی کی قیمت کے طور پر تینوں بچوں کی تعلیم و تربیت و نگہداشت کا انتظام حکومت سنبھالے گی۔ کوئی جا کر عمیر، منیبہ اور ننھی کو بتائے کہ اب وہ بالکل گھبرائیں نہیں کیونکہ پاکستان کے عظیم وزیراعظم عمران خان نے تین دن کے اندر اُن بچوں سے چند منٹوں کی ملاقات تو نہیں کی مگر سانحے کے تین دن بعد قطر کے دورے پر جاتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ”ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بالکل جائز اور قابل فہم ہے۔

 وہ قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لیں گے اور اس کی اصلاح کا آغاز کریں گے“۔ کوئی جا کر عمیر، منیبہ اور ننھی کو بتائے کہ سپر بلڈ وولف مون کی رات سے دو دن پہلے خونخوار بھیڑے نما انسان نقاب پہن کر ساہیوال کی سڑک پر آگئے تھے۔ اِن معصوم بچوں کو یہ سب بتانے والا یہ سب کچھ بتا کر وہاں سے فوراً کھسک آئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عمیر، منیبہ اور ننھی اُس سے پوچھ بیٹھیں کہ ”پرانے زمانے میں ویئر وولفس کی سزا سرعام موت ہوتی تھی، کیا اب بھی ہو گی؟ اور کیا سزا پانے والے ویئر وولفس وہی نقاب پوش مجرم ہی ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).